”تحریک عدم اعتماد “یہ کبھی کامیاب نہیں ہوگی!

وزیر اعظم صاحب! یہ اپوزیشن آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی.... کیوں؟ کیوں کہ یہ لوگ تاریخ کے کمزور ترین ثابت ہوئے ہیں، جنہیں محض ذاتی مفاد کے ، ذاتی کیسز سے چھٹکارے کے اور کرپشن کے الزامات سے بریت کے سوا کچھ نہیں چاہیے۔ وزیراعظم صاحب! اگر کوئی آپ کا کچھ بگاڑ سکتا ہے تو وہ آپ کی حکومت کی اپنی کارکردگی ہے، آپ کے وزراءکے بے لگام تبصرے ہیں، آپ کی خارجہ پالیسی ہے، آپ کی داخلہ پالیسیاں ہیں، آپ کی وزارت خزانہ کی پالیسیاں ہیں اور آپ کے بڑوں کے ساتھ تعلقات ہیں ....اگر یہ سب کچھ ٹھیک ہے تو اُس کے بعد فیصلہ کیا جائے گا کہ اگلی حکومت کس کو ملنی ہے۔ اور پھر یہ جو اپوزیشن کی جانب سے زور و شور سے تحریک جاری ہے کہ ہم وزیرا عظم عمران خان کو ”تحریک عدم اعتماد“ کے ذریعے گھر بھیجیں گے، اس ”اہم“ کام کے لیے اپوزیشن پارٹیاں روزانہ کی بنیاد پرناصرف سر جوڑ کر بیٹھ رہی ہیں بلکہ آپس کی پرانی ”رنجشیں“ بھی دور کی جار ہی ہیں۔اسی اثنا میں پیپلز پارٹی کے قائدین آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی سے ملاقات غیرمعمولی سیاسی واقعہ ہے۔ اسی طرح آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی مسلم لیگ (ن) کے قائدین میاں شہباز شریف اور مریم نواز سے ملاقاتیں بھی ایک سیاسی بریک تھرو ہیں۔ اس کے علاوہ متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) پاکستان کے رہنماﺅں کی میاں شہباز شریف سے ملاقات بھی کھڑے پانی میں پتھر پھینکنے کے مترادف ہے۔ پھر مولانا فضل الرحمن اور اے این پی کا ایک نکتے پر اتفاق کر جانایہ سب کچھ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لیے ہو رہا ہے۔ آگے چلنے سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد ہے کیا اور اسے کب کب استعمال کیا گیا۔ درحقیقت سرکاری طور پر ”تحریک عدم اعتماد “یا ”عدم اعتماد بل“ اس وقت پارلیمان میں لایا جاتا ہے جب کوئی حکومتی عہدیدار کوئی ایسا قدم اٹھاتا ہے جو آئین و قانون کیخلاف ہو یا ایسا اقدام جس سے ملک کی بدنامی اور نقصان ہو۔ پارلیمان میں اکثر عدم اعتماد کا بل حزب اختلاف کے جانب سے پیش کیا جاتا ہے جس پر ارکانِ پارلیمان اپنا ووٹ دیتے ہیں۔ اگر کسی وفاقی عہدیدار (جیسے وزیر اعظم،وفاقی وزیر،وغیرہ) کو برطرف کرنا ہوتا ہے تو وفاقی قانون ساز ایوانوں (مثلا قومی اسمبلی اور سینیٹ) میں بل پیش کیا جاتا ہے اور اگر صوبائی سطح پر کسی عہدیدار (جیسے وزیراعلیٰ،صوبائی وزیر،وغیرہ) کو ہٹانا ہے تو صوبائی قانون ساز ایوانوں میں (جیسے صوبائی اسمبلی) میں بل پیش کیا جاتا ہے۔آئین کے تحت قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ اوپن بیلٹ کے ذریعے ہوتی ہے یعنی سب کے سامنے ہوتی ہے، اس میں پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کی طرح خفیہ ووٹنگ نہیں ہوتی۔جب تحریک عدم اعتماد پیش کی جاتی ہے تو تین دن سے پہلے اس پر ووٹنگ نہیں ہوسکتی اور سات دن سے زیادہ اس پر ووٹنگ میں تاخیر نہیں کی جاسکتی ہے۔ اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو تحریک عدم اعتماد یعنی Vote of No Confidence گزشتہ تین دہائیوں میں دو دفعہ اس آئینی ہتھیار کو آزمایا گیا۔ پہلی تحریک تو محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف تھی۔ وہ اس وقت مرکز میں وزیراعظم تھیں اور میاں نوازشریف پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے مدارا لمہام تھے۔ ان دونوں میں مخاصمت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ ایک دوسرے کی صورت دیکھنے کے بھی روادارا نہ تھے۔ میاں صاحب نے محترمہ کو عدم اعتماد کی صورت میں للکارا۔مطلوبہ تعداد حاصل کرنے کیلئے حکومتی پارٹی کے ارکان کو توڑا گیا۔ پیسے میں کس قدر طاقت ہے اس کا اندازہ ان دنوں ہوا۔ متبادل کے طورپر غلام مصطفی جتوئی کا نام تجویز ہوا۔ جب مطلوبہ تعداد پوری ہوگئی تو ممبران کو ایک بار نہیں بار بار گنا گیا۔ اسکے بعد اسمبلی میں قرارداد جمع کرا دی گئی۔ لیکن پیپلزپارٹی کی جانب سے بھی بولیاں لگنے لگیں، خزانوں کے منہ کھول دیے گئے۔اور نتیجہ یہ نکلا کہ تحریک ناکام ہوگئی، اور محترمہ بال بال بچ گئیں۔ جبکہ دوسری تحریک عدم اعتماد قومی نہیں بلکہ صوبائی تھی، یہ تحریک وزیر اعلیٰ پنجاب غلام حیدر وائیں کے خلاف تھی۔ صوبے میں اطمینان بخش اکثریت رکھنے والی مسلم لیگ کی حکومت کا خاتمہ کبھی نہ ہو پاتا اگر اسی جماعت کے اندر سے ایک باغی گروپ برآمد نہ ہو پاتا۔میاں منظور احمد وٹو کی قیادت میں تقریباً ڈیڑھ درجن اراکین صوبائی اسمبلی پر مشتمل اس گروپ کو پیپلز پارٹی کی حمایت فوری طور پر میسر آگئی جس کے نتیجے میں تحریک عدم اعتماد کامیاب اور منظور احمد وٹو وزیر اعلیٰ بن گئے۔ اب تیسری مرتبہ اپوزیشن جماعتوں نے وزیرا عظم عمران خان کے خلاف ایک بار تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا ہے، اُس کے لیے پہلی بات تو یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنا آسان جبکہ اس کا منظور ہونا بہت مشکل ہے۔کیوں کہ سینیٹ چیئرمین، اپوزیشن لیڈر کے انتخاب سے لے کر پچھلے دنوں ہوئے قومی اسمبلی سے منی بجٹ اور اسٹیٹ بنک کی خود مختاری کے بل پاس کروانے تک اپوزیشن کاسابقہ ریکارڈ اچھا ہوتا تو شاید اس حوالے سے بھی کامیابی کی نوید سنا سکتے تھے مگر بقول شاعر ان چراغوں میں تیل ہی کم تھا کیوں گلہ پھر ہمیں ہوا سے رہے خیر اپوزیشن سے جب بھی پوچھا جاتا ہے کہ آخر آپ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدمِ اعتماد کیوں لانا چاہتے ہیں تو ان کا سادہ سا جواب ہوتا ہے کہ حکمرانوں نے ملک کو تباہ حال کر دیا ہے۔ معیشت زوال پذیر ہے اور مہنگائی آسمانوں کو چھو رہی ہے۔ صاحب اقتدار نااہل ہیں اور اناڑی بھی۔ عوام کی برداشت ختم ہو چکی ہے اس لیے حکومت کو گھر بھیجنا ناگزیر ہے۔ ایک لمحے کے لیے مان لیتے ہیں کہ اپوزیشن کا دعویٰ درست ہے مگر کیا مہنگائی ابھی ہوئی ہے؟ مہنگائی کا عفریت تو عوام کو تین سالوں سے کھا رہا ہے۔ پھر تحریک عدم اعتماد میں اتنی دیر کیوں کی؟ معیشت تو ایک دن کے لیے بھی حکمرانوں کے کنٹرول میں نہیں آئی‘ پھر پہلے اپوزیشن کہاں تھی؟ عوام تو کب سے گریہ کناں ہیں مگر اپوزیشن کو یہ آنسو کیوں دکھائی نہیں دے رہے تھے؟ تحریک عدم اعتماد وزیراعظم کو بدلنے کا آئینی طریقہ ہے، اس میں کوئی عیب کی بات نہیں مگر اس بار مسئلہ یہ ہے کہ اپوزیشن عوام کی لڑائی نہیں لڑ رہی بلکہ وہ اقتدار میں آنے کے لیے پر تول رہی ہے۔ تاکہ وہ دوبارہ ملک کو مسائل کی دلدل میں دھکیل سکیں۔اور کرپشن کر کر کے اس ملک کو کھوکھلا اور اپنے ذاتی کاروبار وں میں وسعت دے سکیں۔ اور پھر یہ بات اگر مان بھی لی جائے کہ عمران خان ڈلیور کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں تو پھر ہمیں کوئی اورآپشن دیکھنی چاہیے ، ناکہ سابقہ کرپٹ حکمرانوں پر اکتفا کرنا چاہیے جو گزشتہ تین دہائیوں سے ملک کو لوٹتے رہے۔ اور پھر ان لٹیروں کا Confidenceلیول چیک کریں کہ یہ اپنے تئیں مکمل تیاریاں کر چکی ہے کہ اگلا متوقع وزیر اعظم کون ہوگا؟ اس حوالے سے ایک رائے آصف علی زرداری کی ہے اور دوسری میاں نواز شریف کی۔ زرادری صاحب کی خواہش اور کوشش ہے کہ پنجاب کا وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کو بنایا جائے اور وزیراعظم مسلم لیگ نون سے۔ دوسری طرف میاں نواز شریف کچھ اور ہی سوچ رہے ہیں۔ پہلے ان کا موقف تھا کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ تحریک انصاف سے ہی ہو یا پھر نیا الیکشن کرا دیا جائے مگر اب انہوں نے اپنی رائے تبدیل کی ہے۔ میاں نواز شریف نے آصف زرداری سے کہا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کو وزیراعظم بنانے کے خواہش مند ہیں جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے بجائے مسلم لیگ نون سے ہو۔ زرداری صاحب میاں نواز شریف کی یہ آفر سن کر پہلے حیران ہوئے اور پھر انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ میر ی پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کرے گی۔خیر اس پکنے والی کھچڑی میں کسی کو فکر نہیں کہ عوام کے مسائل کیسے حل ہوں گے؟ کیسے ملک مسائل کی دلدل سے نکلے گا؟ لیکن فی الوقت تو نہ ان لوگوں کو اپنی عزت کی فکر ہے اور نہ ہی عوام کی کہ ایسے موقع پر عباس تابش یاد آتے ہیں: تم کو شکوہ ہے فقط دل کے چلے جانے کا صاحبو! عشق میں عزت بھی چلی جاتی ہے بہرکیف میرے خیال میں یہ تحریک عدم اعتماد کبھی کامیاب نہیں ہوگی اور نہ ہی حکومت وقت سے پہلے گھر جائے گی ، اور کوئی پاگل ہی ہوگا جو حکومت کو آخری دنوں میں گھر بھیجنے کی باتیں کر رہا ہوگا، کیوں کہ جولائی میں تو ویسے بھی حکومت کو 4سال ہو جانے ہیں اور آخری سال ہمیشہ الیکشن کا سال ہو ا کرتاہے اس لیے سیانے کہتے ہیں کہ ”جو مکا لڑائی کے بعد یاد آئے اُسے اپنے منہ پر مار لینا چاہیے“! لہٰذاہمیں اس وقت خطے کی مخصوص صورتحال، بیرونی تعلقات سے حاصل مواقع اور خطرات پر توجہ دینی چاہیے، ہمیں مہنگائی، تھانہ کچہری کلچر اور کرپشن، پن بجلی منصوبوں کی بحالی،ٹیکسٹائل انڈسٹری کی سرگرمیوں، کنسٹرکشن سیکٹر کی سرگرمیوں، ہینڈمیک مینجمنٹ ، ہیلتھ کارڈ کی کامیابی اور دیگر سینکڑوں قسم کے مسائل کی طرف توجہ دینی چاہیے ۔ تاکہ عوام اس حوالے سے کبھی شش و پنج میں مبتلا نہ ہوں کہ اُن کا اس ملک میں والی وارث کوئی نہیں ہے!