پاک چین تعلقات کی ”اپ گریڈیشن “ کی اچھی کوشش!

کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں ”گیمنگ“ انڈسٹری اس قدر مقبول ہو رہی ہے کہ روزانہ مارکیٹ میں لاکھوں قسم کی کھیلنے والی ”ویڈیو گیمز“ متعارف کروائی جا رہی ہے اور اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق 10کروڑ سے زائد نت نئی گیمیں مارکیٹ میں دستیاب ہیں جس میں ”ہیرو“ منزلیں عبور کرتا جاتا اور انسانی تسکین کو پورا کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ لیکن ان تمام گیموں سے ہٹ کر ایک اہم ترین اور سب سے بڑی گیم جو ملکوں کے درمیان کھیلی جا رہی ہے وہ ہے ”مفادات“ کی گیم۔ اس بڑی ”گیم“ کے کردار وہی ہیں جو اپنے مفادات کی خاطر کبھی سینکڑوں سالہ جنگ کو ختم کردیتے ہیں اور کبھی سینکڑوں سالہ دوستی کو مفادات کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ حیرت زدہ بات یہ ہے کہ اس گیم میں کوئی بھی حرف آخر یا عقل کل نہیں ہوتا.... آج کا شیر کل گیدڑ اور کل کا گیدڑ اگلے دن شیر بن جاتا ہے۔ مثلاً ماضی قریب میں برطانیہ کے یونین جیک پر سورج غروب نہ ہوتا تھا اب حال یہ ہے کہ کئی کئی دن طلوع نہیں ہوتا۔ جس سوویت یونین سے ساری دنیا تھر تھرکانپتی تھی وہ دیکھتے دیکھتے ہانپتے کانپتے صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔ جاپان اور جرمنی جیسی عالمی طاقتوں کو جس امریکہ نے زیر کردیا تھا ویتنام کے ننگے بھوکے لوگوں نے دھول چٹادی۔ نوزائیدہ افغانی حکومت کا گلا گھونٹنے کی خاطر نیٹو کے ممالک متحد ہوکر آئے اور اپنی پیشانی پر رسوائی کا داغ سجا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ جس طالبان کو کل تک دہشت گرد قرار دیا جارہا تھا آج اس کی افغانستان میں موجود حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے سوچ و بچار کر رہے ہیں۔ لیکن تف ہے کہ پاکستان نے اپنے قدم آگے پیچھے کیے ہوں وہ کل بھی Unmovedتھا آج بھی غیر متحرک ہے۔ اُسے اپنے مسائل سے مکمل آگہی ہے مگر مجال ہے کہ وہ بتدریج اُن کے ختم کرنے کے لیے کوئی انقلابی قدم اُٹھائے۔ حد تو یہ ہے کہ وطن عزیز کے کھلاڑی ایک دوسرے کی مخالفت میں بسا اوقات اپنے پاﺅں پر ہی کلہاڑیاں چلاتے نظر آتے ہیں۔ اور کلہاڑیاں بسا اوقات ایسی گہری ضرب لگاتی ہیں کہ اُسے کے زخم کئی نسلوں تک رستے رہتے ہیں۔ نہیں یقین تو آپ پاک امریکا، پاک چین، پاک بھارت، پاک یورپ، پاک افغان، پاک ایران، پاک روس، پاک سعودیہ وغیرہ کے تعلقات دیکھ لیں۔ اللہ کے حکم سے ہم نے کبھی بھی کسی ملک کے ساتھ تعلقات میں ”تسلسل“ نہیں رہنے دیا۔ کبھی ہم روس کی جھولی میں بیٹھنے کی کوشش کرتے ہیں کبھی سعودیہ امارات کے ذریعے امریکا کے ساتھ ہنی مون پر جانے کا ارادہ ظاہر کرتے ہیں تو کبھی ہم چائنہ کے ساتھ مرنے جینے کی قسمیں کھا کر توڑ بھی دیتے ہیں اور اکثر اپنے اس اقدام سے یا تو مکر جاتے ہیں یا اپنی ایسی ایسی مجبوریاں بیان کرتے ہیں کہ آپکا عاشق آپ کا چہرے کے بدلتے تیور ہی دیکھتا رہ جاتا ہے۔ جی ہاں آج ہم بات کریں گے چین کی! کیوں کہ یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ چین کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کس قدر مثالی رہے ہیں۔ لیکن یہ تعلقات باتوں سے نکل کر جب عملی اقدامات کی طرف گئے تو پھر دونوں اطراف کے ”کھلاڑی“ کھل کر سامنے آئے۔ یعنی اسے ایسے بیان کرتے ہیں کہ پاکستان اور چین کے تعلقات پنجابی کی کہاوت سے مزید elaborateہوں گے کہ ”راہ پیا جانے، یا واہ پیا جانے“۔ (یا ساتھ سفر کرنے والا آپ کو جانتا ہے یا جس کے ساتھ لین دین یا معاملات ہوں وہ آپ کو جانتا ہے)۔یعنی چین کے پاکستان کے ساتھ پہلے تعلقات سوکھے سوکھے اور بیانات کی حد تک تھے مگر جیسے ہی سی پیک شروع ہوا۔ چین کی پاکستان کے سامنے اور پاکستان کی چین کے سامنے ”حقیقت“ کھلنے لگی! اور رہی سہی کسر موجودہ حکومت نے 2018ءمیں اقتدار میں آکر یہ کہہ کر نکال دی کہ چین کے ساتھ ہونے والے CPECمعاہدے Reviceہوں گے۔ہمارے حکمرانوں کا ایسا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں ایک دراڑآگئی جسے آج ساڑھے تین سے گزرنے کے باوجود موجودہ حکومت ختم نہیں کر سکی۔ اور وزیر اعظم عمران خان کا حالیہ دورہ بھی اسی دراڑ کو پُر کرنے کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ وزیر اعظم کے حالیہ دورے کی تفصیلات تو بعد میں ڈسکس کرتے ہیں مگر یہ پوری تمہید باندھنے کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ وطن عزیز میں سب سے بڑا مسئلہ پنٹاگون طرز کا مستقل ”تھنک ٹینک“ نہ ہونا ہے۔ یعنی حکومتیں آتی جاتی رہیں مگر اس کی پالیسیوں پر کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے، خواہ یہ پالیسیاں سخت مخالف پارٹی جو اقتدار میں رہ چکی ہو، اُس کی طرف سے ہوں، لیکن ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہیے کہ نئی آنے والی حکومت اُن پالیسیوں میں رخنہ ڈالے، یا مخالفت برائے مخالفت کی وجہ سے کسی منصوبے کو سبوتاژ کرے۔کیوں کہ ہمارے 90فیصد بڑے بڑے پراجیکٹ حکومتوں کے جانے کے بعد پسند ناپسند کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں جس کا نقصان کسی حکمران کو نہیں بلکہ پاکستان کے عوام کو اُٹھانا پڑتا ہے۔ خیراگر ہم وزیر اعظم کے دورہ چین کی بات کریں تو اس کے 33نکاتی مشترکہ علامیے کے مطابق پاکستان اور چین کے درمیان مضبوط دفاعی اور سیکورٹی تعاون کو خطے کے امن و استحکام کے لیے بجا طور پر ایک اہم عنصر قرار دیا گیا ہے۔ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے بنیادی مفادات سے متعلق امور پر اپنی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے تجارت، انفرا سٹرکچر، صنعتی شعبوں میں ترقی، جدید زراعت، سائنسی اور تکنیکی تعاون اور مقامی لوگوں کی سماجی و اقتصادی بہبود سمیت تمام شعبوں میں تعاون کو مستحکم بنانے کیلئے سی پیک کی مشترکہ تعاون کمیٹی کو ذمے داری سونپنے پر اتفاق کیا ہے نیز افغانستان میں انسانی بحران سے نمٹنے کیلئے عالمی برادری کی جانب سے فوری اقدامات پر بھی زور دیا ہے۔ اعلامیے میں چین کی جانب سے پاکستان کی خود مختاری و سلامتی کے تحفظ اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے جبکہ پاکستان نے” ون چائنا “پالیسی کیلئے اپنی وابستگی اور حمایت کا اظہار اور تائیوان، جنوبی بحیرہ چین، ہانگ کانگ، سنکیانگ اور تبت کے معاملے پر چین کیلئے اپنی حمایت کو دہرایا ہے۔ اُمید ہے کہ یہ 33نکات پاکستان کی معیشت اور اندرونی و بیرونی مسائل کو حل کرنے میں مدد گار ثابت ہوں گے ،اور لگ بھی یہی رہا ہے کہ موجودہ حکومت کو اپنے کئے پر شرمندگی ہے اور اب چین کے ساتھ تعلقات کو نئے سرے سے ”اپ گریڈیشن“ کرنے کے موڈ میں ہے۔ اور میں یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ بادی النظر میں پاکستان یہ فیصلہ کر چکا ہے کہ وہ امریکا کی ایما پر کبھی چین کے ساتھ تعلقات خراب نہیں کرے گا اور اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان آئندہ چند دن میں روس کا دورہ بھی کرنے والے ہیں۔ اس لیے میں یہ پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ پاکستان سب سے پہلے یہ فیصلہ کرے کہ اُسے دنیا کے کس بلاک میں شامل ہونا ہے، پھر یہ فیصلہ کرے کہ اُسے کرنا کیا ہے؟ پھر یہ فیصلہ کرے کہ ملک میں کونسا معاشی ماڈل رائج کرنا ہے۔اور ویسے بھی چین ابھرتی عالمی طاقت ہے۔اس کی طاقت کیا ہے ؟ہمیں یہ جاننے میں دلچسپی ہونی چاہئے۔ پاکستان چین کا ایسا دوست ہے جسے روٹی چاہیے اور ساتھ بندوق بھی تاکہ روٹی جھپٹنے والے جانوروں سے بچا جا سکے۔چین نے پاکستان کو معاشی،دفاعی اور تکنیکی معاونت فراہم کی ہے، دونوں ملک ایک دوسرے کو گہرا دوست اور دکھ سکھ کا ساتھی قرار دیتے ہیں۔چین پاکستان کو کئی طرح کے جدید ہتھیار سپلائی کر رہا ہے۔زیادہ اچھی بات یہ کہ اس عمل میں ٹیکنالوجی ٹرانسفر بھی شامل ہے۔پاکستان میں سب سے زیادہ غیر ملکی چینی ہیں۔2013ءمیں چینی باشندوں کی تعداد 20ہزار تھی 2018ءمیں یہ تعداد 60ہزار ہو گئی۔تازہ اندازے کے مطابق اب تعداد ایک لاکھ سے بڑھ چکی ہے۔پاکستانی باشندے بھی چین میں کام کر سکتے ہیں۔چینی یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی کے بعد کئی طرح کے تحقیقی کام کئے جا سکتے ہیں۔آئی ٹی کمپنیوں میں سوفٹ ویئر کوڈنگ کا کام مل سکتا ہے، بین الاقوامی بینکوں میں چارٹرڈ اکاﺅنٹنٹ کا کام کیا جا سکتا ہے۔نومبر 2021ءکے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان سے گئے 28ہزار طالب علم چین میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اور پھر چین کے ساتھ تعلقات بنانے میں سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ چین ہمارا ہمسایہ ملک ہے وہ ہر اچھے برے حالات میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ اور پھر اندازہ ہے کہ نئے معاہدوں سے اس مرحلے میں مزید 30ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آ سکتی ہے۔اس سے کورونا کے اثرات سے متاثرہ معیشت میں بہتری آ سکے گی،دس ہزار سے زائد وہ کاروبار دوبارہ کھل سکیں گے جو بند کر دیے گئے اور جن دو کروڑ افراد کا روزگار متاثر ہوا ان کو روزگار مل سکے گا۔ پاکستان کی معاشی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ ملک کے بڑے حصے میں امن و امان کی خراب حالت ہے۔آدھے سے زیادہ ملک سکیورٹی مسائل کا شکار ہو تو مالیاتی بوجھ باقی آدھے حصے پر آ جاتا ہے۔قبائلی اضلاع میں صنعت، لائیو سٹاک اور تجارتی منصوبوں کو اب تک شروع نہیں کیا جا سکا۔بلوچستان کا بہت بڑا رقبہ ایسا ہے جہاں سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے۔ہمیں چین کو مزید قائل کرنے اور اعتماد دینے کی ضرورت ہے کہ وہاں سرمایہ کاری کرے۔ اور پاکستان کو معاشی بھنور سے نکالنے میں مدد کرے تاکہ پاکستان بھی چین کی طرز پر ترقی کرے اور ایک دن دنیا کی ضرورت بن جائے۔ بہرکیف اُمید کی جا سکتی ہے کہ یہ دورہ چین پاکستان کے لیے خوش آئند ثابت ہو اور ملک میں ترقی کی نئی راہیں کھلنے کا باعث بنے ، اور وزیرا عظم کو بہر صورت یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ حالیہ دورہ کی پاک چین تعلقات میں اپ گریڈیشن کی یہ ایک اچھی کوشش ہے جس کے دوررس نتائج برآمد ہوںگے! #Pak China #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan