آہ .... لتا منگیشکر!

جن گنے چنے افراد کے زیر اثر آپ بڑے ہو رہے ہوتے ہیں ، اُنہیں آپ کبھی نہیں بھول سکتے۔ اُن کا اُٹھنا، بیٹھنا، جینا، جاگنا، سونا سب کچھ آپ کے لیے معنی رکھتا ہے، حتیٰ کہ اُن کا چلے جانا آپ کے لیے اکثر اوقات بڑا غم ثابت ہوتا ہے۔ ہمارے انہی گنے چنے افراد میں سے ایک لتا جی بھی تھیں جن کو سنتے ہوئے مجھے کم و بیش چار دہائیاں گزر گئیں۔ ہم اُن کی آواز کے ساتھ ہی بڑے ہوئے ہیں، ویسے تو ہمارے گھر کا ماحول خاصا دیسی ہوا کرتا تھا مگر پھر بھی ہمارے گھر وں میں محمد رفیع اور لتا جی کو خاص طور پر سنا جاتا تھا۔ بلکہ جب ہم لڑکپن اور جوانی میں تھے تو اُس وقت انڈین ریڈیو سے تین پروگرام آیا کرتے تھے، ایک صبح 7:30سے 8:50تک ، دوسرا تین بجے سے 4:20تک اور تیسرا آتا تھا رات 9:45سے 10:30تک۔ دنیا ادھر کی اُدھر ہو جائے ہم یہ مس نہیں کیا کرتے تھے، بلکہ سکول اور کالج جانے کے لیے ریڈیو کی آواز کے ساتھ ہم تیار ہوا کرتے تھے۔ اس میں زیادہ تر گانے رفیع اور لتا منگیشکر جی کے ہوا کرتے تھے۔ یعنی ہم یوں کہہ لیں کہ ہم لتا جی کو دیکھنے سے پہلے ہی اُن کے سحر میں گرفتار ہو چکے تھے۔ اسی لیے جس کو ہم نے ساری زندگی سنا، اگر آج ہم اُن کے ساتھ انصاف نہ کریں اور اُن کی تعریف میں چند کلمات نہ کہیں تو یہ یقینا زیادتی ہوگی۔ آج لتا منگیشکر 92سال کی عمر میں ہم سے بچھڑ گئیں، ان کی موت پر دنیا بھر میں پھیلے ان کے لاکھوں مداح افسردہ خاطر ہیں۔ انھوں نے جنوبی ایشیا کی تقریباً تین نسلوں کو اپنا گرویدہ بنائے رکھا۔وہ صرف پانچ سال کی تھیں جب انہوں نے گانا شروع کیا۔ نسرین منی کبیر کی کتاب ’لتا ان ہر اون وائس‘ میں خود لتا بتاتی ہیں کہ ’میں اپنے والد دینا ناتھ منگیشکر کو گاتے دیکھتی تھی لیکن خود ان کے سامنے گانے کی ہمت نہیں کر پاتی تھی۔ ایک مرتبہ میرے والد اپنے ایک شاگرد کو موسیقی سکھا رہے تھے، اُنھیں کہیں جانا پڑ گیا تو اُنھوں نے کہا کہ تم ریاض کرو میں ابھی واپس آتا ہوں۔ میں بالکنی میں بیٹھی ان کے شاگرد کو سن رہی تھی میں اس کے پاس گئی اور اس سے کہا کہ تم یہ بندش غلط لگا رہے ہو پھر میں نے اسے گا کر سنایا اتنی دیر میں میرے والد آ گئے اور میں وہاں سے بھاگ گئی۔ اس وقت میں چار سے پانچ سال کی تھی اور میرے والد کو نہیں معلوم تھا کہ میں گاتی ہوں۔“ لیکن جیسے ہی 1942ءمیں دینا ناتھ کا انتقال ہوا تو تین بہنیں، ایک بھائی اور ماں کے ساتھ گھر میں غربت نے ڈیرے ڈال لیے۔ اور پھر پورے گھرانے کی ذمہ داری 13 سالہ بچی کے کندھے پر آ پڑی۔ کھیلنے کے دن تھے لیکن زندگی نے فلم سیٹ پہ لا کھڑا کیا۔ میک اپ کی ملمع سازی اور سیٹ کی ہنگامہ خیزی سے بچی کا دل کٹتا رہتا۔ بمبئی کے ریلوے سٹیشن ملاد سے سٹوڈیوز کا فاصلہ اچھا خاصا تھا لیکن بچی پیدل آیا جایا کرتی تاکہ پیسے بچا سکے۔ رات گئے جب گھر پہنچتی تو ہاتھ میں تھوڑی سی سبزی، ساڑھی کے پلو میں چند سکے اور آنکھ میں ڈھیر سارے آنسو ہوتے۔ یہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی لیکن اگلے دن پیٹ کی بھوک دوبارہ فلمی دنیا کے دوزخ میں لا جھونک دیتی۔ اس کڑے وقت میں ماسٹر جی کے دیرینہ دوست ماسٹر وینائیک نے کولہا پور اپنے پاس بلایا اور پھر اپنی کمپنی کے ساتھ بمبئی لے آئے۔ نئی مصیبت یوں پڑی کہ وینائیک بھی چل بسے اور یوں 1948 میں ماسٹر غلام حیدر نے لتا کے سر پہ ہاتھ رکھا۔ ماسٹر غلام حیدر اس وقت چوٹی کے موسیقار تھے۔ وہ پاکستان سے ایس مکھرجی کی فلم شہید کے لیے موسیقی ترتیب دینے دوبارہ بمبئی گئے اور آرکسٹرا میں کسی کے کہنے پر نئی بچی کو ایک بار سن لینے پر راضی ہو گئے۔ ماسٹر جی فلم شہید کے لیے یہ نئی آواز استعمال کرنا چاہتے تھے لیکن ایس مکھر جی نے کہا نہیں، اس بچی کی آواز بہت پتلی ہے یہ نہیں چلے گی۔ماسٹر غلام حیدر بچی کے ساتھ ریلوے سٹیشن کی طرف چل پڑے اور راستے میں اس نئی آواز کی مناسبت سے ایک گیت کی دھن تیار کی جو ان کی دوسری فلم مجبور (1948)میں دل میرا توڑا کے بول کے ساتھ شامل ہوا۔ یہ گیت انل بسواس نے سنا اور اس طرح کھیم چند پرکاش تک نئی آواز کی خبر پہنچی۔پھر لتا جی کے سفر کا ایسا آغاز ہوا کہ وہ سفر اُن کی موت کے ساتھ ہی ختم ہوا۔ 50 کی دہائی میں لتا جی نمبر ون تھیں تو 90 کی دہائی میں بھی بہترین گیت انہی کی آواز میں امر ہوئے۔ زیادہ نہیں تو گلزار کی فلم لیکن اور رودالی کے گیت ہی سن لیجیے۔ اگر 1949 میں انہوں نے برسات کے لیے نو گیت گائے تو 51 برس بعد ویر زارا کے لیے بھی اتنے ہی گیت گا کر صدا بہار گلوکارہ ہونے کا عملی ثبوت دیا۔ ”ویر زارا“ فلم سے یاد آیا کہ لتاجی نے جب یش چوپڑا کی فلم ویر زارا کے لیے گانے گائے تو ان سے یہ کہہ کر پیسے لینے سے انکار کر دیا کہ وہ ان کے بھائی کی طرح ہیں لیکن جب فلم ریلیز ہوئی تو چوپڑا نے ایک مرسڈیز اُنھیں بطور تحفہ بھجوائی تھی۔زندگی کے آخری دنوں تک لتا اسی کار میں سواری کرتی تھیں۔یہ ہوتی ہے ایک دوسرے کی قدر! خیر 1989 میں لتا کی عمر 60 برس تھی لیکن ان کا گیت ”دل دیوانہ بن سجنا کے مانے نا“ سن کر ایسا لگتا ہے جیسے 20 سالہ لڑکی گا رہی ہے۔ اس گیت کو پچھلے تیس برس کا مقبول ترین گیت سمجھا گیا۔ہم چونکہ لڑکپن میں اُنہی کے گانے اکثر گنگنایا کرتے تھے اور ریڈیو پر اُن سے متعلق خبروں کو زیادہ شوق سے سنا کرتے تھے، پھر جب اُن کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں آیا کہ اُنہوں نے 36زبانوں میں غالباََ 30ہزار گانے گائے ہیں تو ہماری خوشی کی انتہا نہ تھی۔ یہ عالم میرا ہی نہیں بلکہ آج بھی اُس کے چاہنے والوں کا یہی حال رہتا ہے۔ بلکہ پاکستان و انڈیا میں اُن کے چاہنے والوں کی کبھی کمی نہیں رہی۔ پاکستان میں تو اُن کے چاہنے والوں کا یہ عالم تھا کہ لتا خود کہا کرتی تھیں کہ اُتنے ریکارڈ اُن کے انڈیا میں فروخت نہیں ہوئے جتنے پاکستان میں فروخت ہوئے تھے۔ بلکہ یہ بھی اپنی طرز کا ایک ریکارڈ ہی تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ انڈیا میں لتا منگیشکر کو پرستش کی حد تک پیار کیا جاتا رہا اور بہت سے لوگ ان کی آواز کو بھگوان کا سب سے بڑا تحفہ مانتے ۔ 1989 میں لتا کو انڈین فلم انڈسٹری کا سب سے بڑا اعزاز دادا صاحب پھالکے ایوارڈ اور سب سے بڑا شہری اعزاز بھارت رتن 2001 میں دیا گیا۔شاعر اُنہیں سروں میں بکھیرنے کے لیے جہاں شاعری دیا کرتے تھے وہیں اُن کی مدح سرائی کے لیے بھی نظمیں لکھا کرتے تھے۔ جیسے حیدر آباد جیل میں انقلابی شاعر حبیب جالب نے کچھ اس طرح لتا جی کو خراج تحسین پیش کیا تھا۔ اُن کے بقول تیرے مدھر گیتوں کے سہارے بیتے ہیں دن رین ہمارے کیا کیا تو نے گیت ہیں گائے سر جب لاگے من جھک جائے تجھ کو سن کر جی اٹھتے ہیں ہم جیسے دکھ درد کے مارے تیرے مدھر گیتوں کے سہارے بیتے ہیں دن رین ہمارے اور پھر لتا جی کو سب سے بڑا خراجِ تحسین مجروح سلطان پوری نے اپنی نظم میں پیش کیا تھا جس کا عنوان تھا ’لتا منگیشکر‘ جہاں رنگ نہ خوشبو ہے کوئی تیرے ہونٹوں سے مہک جاتے ہیں افکار میرے میرے لفظوں کو جو چھو جاتی ہے آواز تیری سرحدیں توڑ کر اڑ جاتے ہیں اشعار میرے خیر بات سرحدوں کی ہوتو ویسے بھی آواز، فن اور فنکار کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، کوئی سرحد نہیں ہوتی اور نہ ہی اُس کا کسی مخصوص طبقے سے تعلق ہوتا ہے۔ وہ اپنا خداداد فن دکھاتا اور داد وصول کرتا ہے۔ اُس کے چاہنے والوں میں ہر رنگ، ہر نسل اور ہر مذہب کا فرد شامل ہوتا ہے۔ اور ویسے بھی فنکار یا فنون لطیفہ سے وابستہ لوگ نہایت حساس، ہمدرد اور انسان دوست ہوتے ہیں۔ لتا جی بھی سادگی، محبت، انسان دوستی اور حساسیت کی چلتی پھرتی تصویر تھیں۔ محمد رفیع، کشور کمار، نور جہاں، مکیش، طلعت محمود اور مہدی حسن جیسے نابغہ روزگار گلوکاروں نے اس میدان میں سربراہی کا تاج ان کے سر پر رکھا تھا جبکہ وہ خود میڈم نور جہاں کو اپنی استاد مانتی تھیں اور ان کی بے حد عزت کرتی تھیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ مہدی حسن کے گلے میں بھگوان بولتا ہے۔وہ امر ہیں، امر رہیں گی اور رہتی دنیا تک لوگ اُن کے گانے سنتے رہیں گے اور محظوظ ہوتے رہیں گے! #lata mangeshkar #Pakistan #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan