قیدی ، جیل اورچیف جسٹس کے ریمارکس !

نیلسن منڈیلا نے کہا تھا کہ ”کسی قوم کے بارے میں صحیح اندازہ اس کی جیلیں دیکھ کر ہوتا ہے، اور کسی قوم کو اس بات پر جج نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنے بڑے لوگوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتی ہے، دیکھنے کی بات یہ ہے اس کا اپنے چھوٹے لوگوں سے سلوک کیسا ہے“۔اور پھر کہا جاتا ہے کہ کسی معاشرے کی ”گورننس“ کو دیکھنا ہوتو ان کی جیلوں کا جائزہ لے لیں،آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ یہ معاشرہ کس قسم کا ہے اور یہاں کا نظام کیسا ہے؟ ظاہر ہے ہمارا معاشرہ کسی لحاظ سے بہتر تو ہو نہیں سکتا ، کیوں کہ ہماری جیلیں بھی اس بات کی گواہ ہیں۔ اور اگر جیلیں ہی صرف ٹھیک کر دی جائیں اور عدالتی نظام ٹھیک نہ ہو تو یہ بھی ممکن نہیں ہے۔ کیوں کہ جب بھی سرسبز ہوتا ہے تو پورادرخت ہی سرسبز ہوتا ہے کسی ایک شاخ کو ٹھیک نہیں کیا جا سکتا ۔ اور پورے درخت کو سرسبز کرنے کے لیے پورے نظام اور قوانین کو ”آپریشنل“ کرنے کی ضرورت ہے، جس کے لیے ہمیں شاید ایک دو سال نہیں بلکہ دو تین دہائیاں درکار ہوں گی۔ خیر آج کا ہمار ا موضوع اسی نظام کی ایک شاخ ”جیلیں“ ہیں جن کے بارے میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے اڈیالہ جیل سے لکھے گئے ایک قیدی کے خط پر ریمارکس دیئے ہیں کہ وزرا اور ججز بھی دو تین دن جیل میں رہیں تو انہیں مشکلات کا اندازہ ہو۔ کیوں کہ وہاں شکایات کا نظام فعال نہیں ہے، دو ہزار کی جگہ پانچ ہزار سے زیادہ قیدی اڈیالہ جیل میں رکھے گئے ہیں۔پھر جیل کے اندر کرپشن اس قدر بڑھ چکی ہے کہ ہر اہلکار اپنے اپنے مطابق جتنی کرپشن کر سکتا ہے اُس سے دوگنا کرپشن کر رہا ہے ،پھر جیلوں کے اندر کوئی رول آف لا نہیں،بااثر اور عام قیدی میں بھی تفریق ہے۔ پھر کہا کہ اگر میڈیا کو جیلوں میں قیدیوں تک رسائی اور انٹرویوز کی اجازت دی جائے تو جیلوں کے اندر کیا ہوتا ہے سب کچھ سامنے آجائے گا وغیرہ وغیرہ جج صاحب نے جس طرف توجہ دلائی اور ایک عام قیدی کے خط کو پٹیشن میں تبدیل کرکے سماعت کی ہے یہ اپنی مثال آپ ہے ، اس سماعت کے بعد کچھ نہ کچھ تبدیلی تو ضرور آئے گی، اور اگر تبدیلی نہ بھی آئے تو ان قیدیوں کے مسائل عوام کے سامنے ضرور آئیں گے۔ کیوں کہ راقم اس حوالے سے بار بار لکھ چکا ہے کہ بدقسمتی سے پاکستان میں دن بدن جیلوں کی حالت بد سے بدتر اور قیدیوں کے مسائل سنگین سے سنگین تر ہوتے جا رہے ہیں۔ میں جن دنوں رپورٹنگ کیا کرتا تھا تو اُس وقت جیل میں کسی نہ کسی کام سے ہفتے میں ایک دو بار جانا ہوتا تھا، تو یقین مانیں قیدیوں اور جیل کی حالت زار دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا تھا، میں اکثر سپریٹنڈنٹ سے پوچھتا تھا کہ ان کو اس حالت میں کیوں رکھا جاتا ہے، حالانکہ ہماری تہذیب مجرموں کے ساتھ غیر انسانی سلوک رکھنے کی کبھی روادار نہیں رہی۔ لیکن مجھے کوئی مناسب جواب نہ ملتا تھا۔ خیر میرے نزدیک اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک تو مجرموں کے بارے میں ایک متعصبانہ سوچ پائی جاتی ہے۔ مجرم سے ہمدردی کے بجائے نفرت کا رجحان غالب ہے۔ اس رجحان کی وجہ سے قیدی کے جائز مسئلے پر بھی ہمدردانہ غور نہیں ہوتا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جیلوں کی آبادی کے پاس ووٹ کی طاقت، لابی یا اثرورسوخ نہیں ہے، جس کے بغیر ہمارے ہاں کوئی کام نہیں ہوتا۔ تیسرا، ہمارے ہاں یہ بات واضح نہیں کہ قید کی سزا کا مطلب یا مقصد کیا ہے؟ قانون اور فلسفے میں قید کی سزا کا مقصد مجرم کو آزادی سے محروم کرنا ہے، مجرم سے غیر انسانی سلوک کرنا نہیں ہے۔ بلکہ میں تو یہ کہنے میں کسی قسم کی عار محسوس نہیں کروں گا کہ پاکستان کی جیلیں قید خانے نہیں، عقوبت گاہیں ہیں۔ ان عقوبت خانوں کو جیل خانوں میں بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے سب سے پہلے فرسودہ سوچ میں تبدیلی ضروری ہے۔ جرم و سزا کے بارے میں ہماری سوچ صدیوں پرانی ہے۔ اس باب میں ہمارے ارد گرد کی دنیا ہم سے کوسوں میل آگے ہے۔ ہم تاریخ کے تعزیراتی دور میں کھڑے ہیں جب حکمران یہ سمجھتے تھے کہ سماج سے جرائم کو ختم کرنے کا واحد راستہ سخت اور عبرت ناک سزائیں ہیں۔ یہ بہت پرانا تصور ہے۔ جرم و سزا کے جدید تصور، جو آج بیشتر ترقی یافتہ دنیا میں مقبول ہو رہا ہے، میں سزا پر زور دینے کے بجائے مجرم کی اصلاح پر زور دیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک کامیاب مثال ناروے ہے۔ ناروے میں بھی ایک زمانے میں ہماری طرح فرسودگی پر مبنی جرم و سزا کا نظام رائج تھا۔ 1970 سے ناروے نے اپنے نظام میں تبدیلی کا آغاز کیا، اورآہستہ آہستہ سخت تعزیراتی نظام کو اصلاحی یا بحالی کے نظام میں بدل دیا۔ اس اصلاحی نظام کی برکت سے اس وقت ناروے میں مجرم کی طرف سے دوبارہ جرم کرنے کی شرح دنیا میں سب سے کم ہے۔ جبکہ مجرم کی طرف سے دوبارہ جرم کرنے کی شرح جنوبی ایشیائی ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔ خاص طور پر اگر پاکستان کو دیکھیں تو یہ شرح 70فیصد، انڈیا، 66فیصد اور بنگلہ دیش میں یہ شرح 55فیصد سے کم ہے۔ خیر اس وقت ناروے کی جیلوں میں قیدیوں کی کل تعداد چار ہزار سے کم ہے۔ ان میں بھی بیس فیصد وہ لوگ ہیں، جو ناروے سے باہر پیدا ہوئے اور ہجرت کرکے یہاں آباد ہو گئے۔ ناروے میں سزائے موت یا عمرقید کی سزا نہیں ہے۔ کسی جرم میں قید کی زیادہ سے زیادہ سزا11سال ہے، جس میں جج بوقت ضرورت اضافہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ اس وقت سزا اور جیلوں کا”ناروے ماڈل“ دنیا میں سب سے بہترین مانا جاتا ہے۔ یہ ماڈل اس قدر مقبول ہے کہ پوری ترقی یافتہ دنیا میں اس کی تقلید کی کوشش ہو رہی ہے۔ تعزیراتی کی جگہ اصلاحی تصور کو اپناتے ہوئے ناروے میں معمولی جرائم والے مجرم کو جیل کی سزا کے بجائے ”کمیونٹی سروس“ یعنی معاشرے میں رہ کر سزا کاٹنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ جبکہ اس کے برعکس معذرت کے ساتھ یہاں آدھی جیلیں تو ججز کی وجہ سے بھری پڑی ہیں، وہ کیسے؟ وہ اس طرح سے کہ مثال کے طور پر قتل کے مقدمے میں سیشن کورٹ سے اگر کسی ملزم کو سزا ہو جائے تو اُسے کال کوٹھری میں شفٹ کر دیا جاتا ہے اور اگر اُس نے لاہور ہائیکورٹ میں اپیل دائر کر دی ہے تو اُس اپیل کو سننے میں ہائیکورٹ 2,2سال لگا دیتی ہے، 2سال کے بعد بیشتر ملزمان کو ہائیکورٹ یا توپھانسی کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کر دیتا ہے یا اُنہیں بری کردیتا ہے، لیکن اس دوران مجرم 2سال تک کال کوٹھری میں رہ کر ذہنی مریض بن چکا ہوتا ہے، اُس کی زندگی ختم ہو چکی ہوتی ہے۔ وہ قطعاََ نارمل لوگوں کی طرح زندگی نہیں گزار سکتا۔ اور نظام عدلیہ کے حوالے سے میں اس لیے تنقید کر رہا ہوں کہ گزشتہ سال میرے سامنے ہائیکورٹ میں 7سینئر لوگوں کی ضمانت منظور ہوئی، جج صاحب نے فیصلہ لکھنے میں 13دن لگا دیے اور 13دن تک وہ سات لوگ جیل میں رہے، حالانکہ وہ تمام لوگ بااثر لوگ تھے، لہٰذاجب با اثر افراد کے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے تو ہمارے نظام انصاف میں غریب آدمی کے ساتھ کیا ہوتا ہوگا۔ اس کے علاوہ آپ کسی کچہری میں چلے جائیں اور ہر عدالت کے باہر جا کر خود دیکھ لیں کہ جو مقدمات کی فہرست لگتی ہے اُس میں مقدمات کتنے کتنے پرانے ہیں ، کوئی مقدمہ آپ کو تازہ نظر نہیں آئے گا۔ کیوں کہ تازہ مقدمے کی باری ہی نہیں آتی، اور لاکھوں مقدمات زیر التوءہیں اس لیے پہلے اُن کی باری آتی ہے، پھر ہماری جیلیں اوور لوڈڈ ہیں، جہاں 2ہزار کی گنجائش ہے وہاں پانچ پانچ ہزار قیدیوں کو رکھا گیا ہے، نئی جیلیں بنانے کے حوالے سے کوئی حکمت عملی ہی نہیں ہے۔ بلکہ فی قیدی حکومت جیل حکام کو 110روپے روزانہ دیتی ہے ، جس میں اُس کے لیے دو وقت کا کھانا اور دیگر سہولیات مہیا کرنی ہیں۔ہمارے ہاں یہ رقم سالانہ 35سے 40ہزار روپے فی قیدی بنتی ہے جبکہ ناروے کی جیل میں فی قیدی 1لاکھ 20ہزار ڈالر سے بھی زائد کی رقم خرچ کی جاتی ہے۔ تبھی ہماری جیلوں میں قیدیوں کو غیر معیاری کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔ اور پھر آپ جیلوں کے سٹاف کو دیکھ لیں، اختیارات اُن کے پاس بے شمار ہوتے ہیں، مگر اُن کی تنخواہیں عام پولیس کانسٹیبل سے بھی کم ہوتی ہیں، حالانکہ وہ زیادہ خطرناک لوگوں میں ڈیوٹی کر رہا ہوتا ہے، عام پولیس کانسٹیبل تو عام لوگوں کو ڈیل کر رہا ہوتا ہے، لیکن جیل کانسٹیبل زیادہ خطرناک لوگوں کے درمیان رہتا ہے، لہٰذاضروری ہے کہ تنخواہ اور اختیارات کے توازن کو برقرار رکھا جائے، آپ یہاں سے اندازہ لگائیں کہ جیل سپریٹنڈنٹ کی ایک لاکھ روپے سے کم تنخواہ ہوتی ہے، مگر اختیار اختیارات اُس کے پاس کروڑوں کے ہوتے ہیں،وہ پھر پیسے بنانے کے طریقے تلاش کرتا ہے ، جیسے حال ہی میں شاہ جتوئی کیس کو دیکھ لیں، شاہ رخ جتوئی جیسے کیس کو ہینڈل کرنے کے لےے سپریٹنڈنٹ کو پچاس پچاس لاکھ روپے کی رشوت آفر کی جاتی ہے، سیاسی کیسوں میں تو پیسوں کی حدود ہی نہیں ہوتی۔ تو ایسے حالات میں وہ کیوں کسی بھی روپے پیسے کی پیشکشوں کو ٹھکرائے گا۔ لہٰذاجج صاحب کی یہ بات حقیقت ہے کہ دو تین دن کیا دو دو مہینے سب بڑے بڑے عہدے رکھنے والے جیل میں رہیں تاکہ اُنہیں علم ہو سکے کہ انتظامات کیسے ہیں؟ یا کیسز کی باری کا انتظار کیا ہوتا ہے؟ بہرکیف اگر ہم نے جیل کا نظام بہتر بنانا ہے تو اُس کے لیے ہمیں سب سے پہلے عدلیہ، پھر جیل حکام اور پھر قیدیوں کی حالت پر غور کر نا ہوگا، دنیا کی مختلف جیلوں کے ماڈلز کو دیکھنا ہوگا، چلیں ہم دور نہیں جاتے ہمسایہ ملک بھارت کو دیکھ لیں جہاں نئی اور جدید جیلوں کے تجربات کیے جا رہے ہیں۔ اس انتہائی سستے اور کامیاب طریقے کی ایک مثال بھارت کے شہر جے پورمیں قائم سنگانر جیل ہے۔ یہ جیل 1950 میں قائم ہوئی اور اس میں وہ قیدی رکھے جاتے ہیں، جو کچھ عرصہ عام جیلوں میں قید کاٹ چکے ہوتے ہیں اور اچھے چال چلن کا ثبوت دے چکے ہوتے ہیں۔ اس جیل میں قیدیوں کو صرف رہائش دی جاتی ہے۔ اپنی ضروریات اور گزر اوقات کے لیے قیدیوں کو دن کے وقت جیل سے باہر جاکر عام لوگوں کے ساتھ کام کاج کرنا پڑتا ہے۔ اس جیل میں واحد پابندی یہ ہے کہ ہر شام قیدیوں کی حاضری لگتی ہے۔ اس جیل میں قیدی کے لیے کوئی سلاخیں یا دیواریں نہیں ہیں۔ یہ دنیا کی واحد جیل ہے، جس سے کئی قیدی باہر نکلنے کے لیے آسانی سے تیار نہیں ہوتے۔ پاکستان کو بھی اسی قسم کی جیلوں پر کام کرنا ہوگا تاکہ ہمارے قیدی جیلوں سے پیشہ ور مجرم بن کرن نکلنے کے بجائے ایک ذمہ دار پاکستانی شہری بن کر نکلیں اور پاکستان کی تعمیر و ترقی میں کردار ادا کر سکیں! #Pakistan #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan