یہ کیسی لاقانونیت ہے؟

کیا آپ تصور کر سکتے ہیںکہ قتل کے مجرم جسے سزائے موت ہوئی اور بعد ازاں سزائے موت عمر قید میں تبدیل ہوگئی کو گزشتہ ڈھائی سال سے ایک نجی ہسپتال میں رکھا گیا تھا، اور وہاں وہ ایک قیدی کی زندگی گزارنے کے بجائے لگژری لائف گزار رہا تھا۔ یہ تو بالکل ایسے ہی ہوا جیسے بقول بہادر شاہ ظفر ایک شاخ گل پہ بیٹھ کے بلبل ہے شادمان کانٹے بچھا دیے ہیں دل لالہ زار میں جی ہاں یہ ہے پاکستان یہاں سب کچھ دستیاب ہے ماسوائے انصاف کے! لگتا یوں ہے کہ ریاست پاکستان کے تمام ادارے طاقتور افراد کے سامنے سرنگوں ہیں! آپ خود دیکھ لیں کہ موصوف شاہ رخ جتوئی وہی ہے نے نوجوان شاہزیب کو قتل کیا تھا ، یاد تازہ کرنے کے لیے واقعہ پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو 25 دسمبر 2012 کو مقتول شاہ زیب خان کی بہن کے ساتھ شاہ رخ جتوئی اور اسکے دوست غلام مرتضیٰ لاشاری کی جانب سے بدسلوکی کی گئی جس پر شاہ زیب مشتعل ہو کر ملزمان سے لڑ پڑا، موقع کے وقت معاملے کو رفع دفع کردیا گیا تاہم شاہ رخ جتوئی نے دوستوں کے ساتھ شاہ زیب کی گاڑی پر فائرنگ کر کے اسے قتل کردیا تھا۔ واقعے کے بعدشاہ رخ دبئی فرار ہوگیا، تفتیش سست روی کا شکار رہی، لیکن میڈیا و سوشل میڈیا اُس کا پیچھا کرتا رہااور بالآخرمجرم گرفتار ہوا اور مقدمہ انسداد دہشت گردی عدالت میں چلا۔7جون 2013 کو قتل کا جرم ثابت ہونے پر شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کو سزائے موت جبکہ سجاد تالپور اور غلام مرتضیٰ لاشاری کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ بعد ازاں سندھ ہائیکورٹ نے شاہ زیب قتل کیس میں شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا جبکہ دوملزمان سجاد تالپوراورغلام مرتضیٰ کی عمر قید کی سزا برقرار رکھی تھی۔اگر قارئین کو یاد ہو تو 2019ءمیںسزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کروا کر مجرمان عدالت سے وکٹری کے نشان بنا کر نکلے تھے، اور رپورٹس کے مطابق اُس کے بعد ہی اُنہیں جیل سے نجی ہسپتال کی بالائی منزل پر منتقل کیا گیا تھا، جہاں وہ شاہانہ زندگی گزار رہا تھا ، اور یہ بھی رپورٹ ہوا ہے کہ موصوف کے خاندان نے ہسپتال کی پوری بالائی منزل ہی کرائے پر حاصل کر رکھی تھی۔ حد تو یہ ہے کہ شاہ رخ جتوئی کو محکمہ داخلہ سندھ کے حکم پر جیل سے نجی اسپتال میں منتقل کیا گیااور اس منتقلی کے پیچھے سندھ کی ایک اعلیٰ شخصیت کا ہاتھ ہے۔اگر نجی ہسپتال کی انتظامیہ کی بات کریں تو وہ ڈھائی سال قیام کا تو نہیں مانی مگر اُن کا کہنا ہے کہ موصوف گزشتہ 8ماہ سے اسی ہسپتال میں زیر علاج تھے۔جنہیں گزشتہ روز صبح گیارہ بجے واپس جیل منتقل کیا گیا ہے۔ اور پھر یہیں بس نہیں بلکہ حد تو یہ ہے کہ اس واقعہ کے میڈیا پر آنے کے بعد سنگین جرائم میں سزایافتہ اور بااثر اور کاغذات پر سرکاری اور نجی اسپتالوں میں شاہانہ زندگی گزار نے والے سعید بھرم اور کشور کمار سمیت 18سے زائد قیدیوں کو بھی دوبارہ سنٹرل جیل منتقل کر دیا گیا ہے، اور جس نجی ہسپتال میں مجرم شاہ رخ کو رکھا گیا تھا وہ ویسے ہی نیب اور اینٹی کرپشن کے ملزمان کو اپنے پاس رکھ کر اُن کا شاہانہ ”علاج“ کرنے کے حوالے سے مشہور ہے۔ مطلب یہ ہے پاکستان کا قانون جہاں انصاف کا جنازہ ہے ذرہ دھوم کے نکلے مطلب یہاں انصاف کے نام پر کچھ بھی ہو سکتا ہے، معذرت کے ساتھ یہ کیسا ملک ہے کہ جہاں کا عدالتی نظام بلا شبہ ابھی تک عام آدمی کو انصاف نہیں دے سکا ہے۔جبکہ امیر اور طاقتور آدمی کے لیے دوران قید بھی ایسی ایسی شاہانہ طرز کی سہولتیں نکال لی گئی ہیں کہ بتاتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے۔ جبکہ اس کے برعکس غریب آدمی کے لیے یہاں دادا کیس دائر کرتا ہے اور پوتے کو بھی حتمی فیصلہ نصیب نہیں ہو تا، اور کئی لوگوں نے بغیر سزا ہوئے سزا جتنی قید کاٹ لی ہے۔ تاریخ پر تاریخ ہی انصاف کے متلاشی کا مقدر بن جاتا ہے۔ اس لئے ایک عام تاثر یہ بھی بن گیا ہے، جس معاملہ کو حل کرنا مقصود نہ ہو اسے عدالت لے جائیں خودی عدالتی نظام میں مر جائے گا۔لیکن طاقتور گروہ کا معاملہ حل ہونے پر آئے تو ایک ہی دن میں حل ہو جا تا ہے۔ ضمانت ملے تو چھٹی والے دن مل جائے۔ یہ تمام لکھتے ہوئے بھی میں شدید خوف کا شکار ہوں کہ کہیں تو ہین عدالت کا شکار نہ ہو جاو¿ں ، لیکن لکھنے سے ہی مسائل حل ہو نگے۔آج ملک شدید بحران کا شکار ہے کہیں نہ کہیں ہمارا عدالتی نظام بھی اس کا ذمہ دار ہے۔ ورنہ ناظم جوکھیو کیس کو ہی دیکھ لیں، سنا ہے ناظم کے خاندان کی جانب سے صلح پر آمادگی ظاہر کر دی گئی ہے، یہ وہی کیس ہے جس میں جام اویس اورجام عبدالکریم نے عرب مہمانوں کو بلایا، سندھ میں پرندوں کے شکار کو روکنے کے لیے ناظم جوکھیو نے ویڈیو بنائی تھی جبکہ جام خاندان نے ناظم کو دھوکے سے گھر بلا کر اُسے ناصرف قتل کر دیا تھا بلکہ لاش کی بے حرمتی بھی کی جاتی رہی۔ اور یہی نہیں بلکہ سندھ میں ہزاروں ایسے قتل ہو رہے ہیں، اگر ناظم جوکھیو کے اہل خانہ نے جسد خاکی کو نیشنل ہائی وے پر نہ رکھا ہوتا تو شاید ایف آئی آر بھی درج ہوتی اور نہ ہی ہمیں یا آپ کو اس قتل کے بارے میں علم بھی ہوتا۔ آپ اس کیس کو بھی چھوڑیں ، کوئٹہ میں مجید اچکزئی کیس کا تو سب کو علم ہوگا، اگر نہیں یا د تو میں بتاتا چلوں کہ20جون 2017کو موصوف نشے میں دھت گاڑی چلا رہے تھے، اسی اثنا میں ٹریفک پولیس انسپیکٹر عطا اللہ کو روند ڈالا، عبدالمجید اچکزئی اُس وقت بلوچستان کی اسمبلی کے رکن اور اس وقت پبلک اکاو¿نٹس کمیٹی کے چیئرمین تھے ، مقدمہ چلا لیکن 4 ستمبر کو بلوچستان کی ماڈل کورٹ نے عبدالمجید خان اچکزئی کو عدم ثبوت پربری کر دیا۔ پھر سانحہ ساہیوال کو کون بھلا سکتا ہے؟ اُس کے بھی تمام ملزمان کو بری کر دیا گیا۔ اس کیس کے ملزمان کو بھی شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا گیا۔ اور حد تو یہ ہے کہ رپورٹس کے مطابق جس پولیس آفیسر پر سانحہ ساہیوال پر ملوث ہونے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔اسی کو ہم نے گزشتہ 23مارچ کو تمغہ شجاعت سے بھی نواز دیا۔ پھر سانحہ ماڈل ٹاﺅن سے کون واقف نہیں اُس کے بھی تمام ملزمان کو اعلیٰ عہدوں پر تعینات کر دیا گیا۔ پھر اسامہ ستی کیس میں بھی کسی ملزم کو ابھی تک سزا نہیں دی گئی ، حد تو یہ ہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے شرجیل میمن کے کمرے سے جب وہ دوران قید ہسپتال داخل تھے، شراب کی بوتلیں پکڑیں تو کچھ ہی دیر بعد وہ شہد کی بوتلوں میں تبدیل ہوگئیں! پھر راﺅ انوار کو آج تک کون بھولا ہے جس نے 4سو سے زائد افراد کو جعلی پولیس مقابلوں میں مارا مگر وہ آج بھی شایان شان گھوم پھر رہا ہے۔ بہرکیف سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں طاقتور اور وڈیراشاہی کب ختم ہو گی، وڈیرے اور بااثر افراد ایسے ہی انسانیت کی تذلیل کر کے دندناتے پھرتے رہیں گے؟ کیا انصاف کا یہی معیار ہے؟ غریب اور لاچار لوگوں کو اس دھرتی پر جینے کا کوئی حق نہیں ہے یا پھر انہیں کیڑے مکوڑوں سے بھی بدتر زندگی جینا ہو گی اور کتوں کے برتنوں میں پانی پینا اور زمین پر ناک رگڑتے اور ٹسوے بہاتے زندگی کے ایام گزارنا ہوں گے۔ اس کا جواب ریاست مدینہ اور صادق و امین وزیراعظم کو دینا ہوگا۔اور حکمرانوں کو بتانا ہوگا کہ یہاں انصاف کی اُمید کب اور کیسے کی جا سکتی ہے جب ہر طرف کرپشن کا بول بالا ہو، اور پھر دنیا کے بڑے ادارے ”ورلڈ جسٹس پراجیکٹ“ نے ہماری 126ممالک میں سے 117ویں پوزیشن اسی لیے رکھی ہے کہ ہمارا عدالتی نظام اور ادارے کسی صورت ٹھیک کام نہیں کر رہے۔ اس ادارے کے مطابق صرف 14فیصد افراد نے ملکی نظام انصاف پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ بیشتر متاثرین نے بتایا کہ مقدمہ بازی کے دوران اُنہیں بہت تلخ تجربات کا سامنا کرنا پڑا۔ الغرض ہمارا گراف زمبابوے اور افریقہ کے غیرترقی یافتہ ممالک سے بھی نیچے؛ محض بولیویا اور افغانستان جیسے ممالک سے قدرے بہترہے۔ حالانکہ یہاں خصوصی عدالتی قائم کر دی گئیں مگر موجود عدالتوں کو ٹھیک کرنے کی حکمت عملی نہیں بنائی گئی۔ اینٹی کرپشن کی خصوصی عدالتیں، نیب کی خصوصی عدالتیں، دہشت گردی کی خصوصی عدالتیں، لیکن عام عدالتوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اِسی لئے یہ خصوصی عدالتیں بھی عوام کے مسائل حل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔اگر پاکستان میں جمہورئیت کو زندہ رہنا ہے تو عدالتوں کو مظلوم کو اس کی امید ٹوٹنے سے پہلے انصاف دینا ہو گا۔ کسی ایمر جنسی کی ضرورت نہیں صرف چیف جسٹس آف پاکستان کو عدالتی ایمرجنسی لگانے کی ضرورت ہے۔تمام کیسز کے ملزمان کے فالو اپ کی ضرورت ہے، ماتحت اداروں کو کنٹرول میں رکھنے اور مدعیان و گواہان کے تحفظ کی ضرورت ہے۔ پھر ججوں کا بغیر کارروائی کے کیس کو لامحدود ملتوی کرنے کے اختیار پر چیک اینڈ بیلنس لگانے کی ضرورت ہے۔ جبکہ اس کے ساتھ ساتھ نظام انصاف میں موجود خامیوں کو دور کرنے کے لیے نہ صرف سنجیدہ کوششیں ہونی چاہئیں بلکہ اِن کے نتائج بھی سامنے آنے چاہئیں۔ یاد پڑتا ہے کہ کچھ سال قبل اسلام آباد میں اعلیٰ اور ماتحت عدلیہ کی ایک بڑی کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس میں نظام انصاف میں بہتری کے لیے متعدد تجاویز کی منظوری دی گئی تھی، اس وقت کے چیف جسٹس صاحب کی صدارت میں ہونے والی اِس کانفرنس میں متعدد دوسری تجاویز کی منظوری بھی دی گئی تھی لیکن معلوم نہیں بعد میں وہ تجاویز کس سرد خانے کی زینت بن گئیں کہ آج بھی سب کچھ ویسے کا ویسے ہی چل رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہرصفحے پر بے گناہی کی داستان رقم ہونے کے باوجود ایک بے گناہ شخص عمرقید کی سزا کاٹنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اور طاقتور ہسپتال کے ہسپتال کرائے پر حاصل کرکے قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکتا ہے اور نظام کو منہ چڑھاتا رہا ہے! #shah rukh jatoi #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan