ڈیورنڈ لائن: امن کی باڑ ، قائم رہنی چاہیے!

سوشل میڈیا کے جہاں بہت سے فوائد ہیں وہیں ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ جو خبریں مین اسٹریم میڈیا پر کسی وجہ سے نہیں چل رہی ہوتیں وہ آپ سوشل میڈیا پر آسانی اور بغیر کسی روک ٹوک کے دیکھ سکتے ہیں، اور پھر چونکہ پاکستان کا اپنا سوشل میڈیا نیٹ ورک نہیں ہے اس لیے اُسے دوسرے ممالک کے بڑے بڑے سوشل میڈیا نیٹ ورک پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے، اس کا ایک نقصان قومی سطح پر یہ ہوتا ہے کہ خبریں روکنے کا اختیارپاکستان کے پاس نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے جس سے ایسی خبریں بھی پھیل جاتی ہیں جوبعض اوقات ملکی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث بھی بنتی ہیں۔ چین نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے متعدد سوشل میڈیا ایپ کی اپنے ملک میں اجازت ہی نہیں دے رکھی جبکہ اس کے متبادل کے طور پر وہ اپنی عوام کو اپنی بنائی ہوئی ایپس اور سرچ انجن استعمال کرنے کے لیے پابند کرتا ہے ۔ اس کا چینی حکومت کو فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ جب چاہیں اور جو خبر چاہیں روک بھی سکتے ہیں، کنٹرول بھی کر سکتے ہیں اور حذف بھی کر سکتے ہیں۔ مثلاََ کورونا کے حوالے سے اُن کے سوشل میڈیا پر اتنی ہی خبریں پھیلیں جتنی حکومت نے چاہا۔ اگر کہیں کسی نے اس حوالے سے سنسنی پھیلانے کی کوشش کی تو فوری طور پر اُس کا نا صرف اکاﺅنٹ بند کر دیا گیا بلکہ اُس کے خلاف کارروائی بھی عمل میں لائی گئی۔ ویسے تو ہے یہ شخصی آزادی کے خلاف اقدام مگر وہاں نیم جمہوریت کی وجہ سے ایسی آوازیں نہیں اُٹھ سکتیں! خیر یہ تمہید اس لیے باندھی کہ پاکستان کے سوشل میڈیا پر جب سے افغانستان میں طالبان برسرِ اقتدار آئے ہیں تو مسلسل ایسی ویڈیوگردش کررہی ہیں جن میں سرحد (ڈیورنڈ لائن ) پر سکیورٹی کے لیے نصب خار دار تاروں کو اکھاڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ان ویڈیوز کے بعد افغان طالبان کی جانب سے ایسے بیان بھی سامنے آئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ وہ اس سرحد (ڈیورنڈ لائن) کو تسلیم نہیں کرتے۔ حتیٰ کہ افغان دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی بھی اس میں کود پڑے ہیں اور کہا ہے کہ طالبان حکومت مسائل کے حل کے لیے افہام و تفہیم، بات چیت اور پڑوسیوں سے اچھے تعلقات پر یقین رکھتی ہے، اسی لیے اس مسئلے (باڑ اکھاڑنے کے واقعات) کوسفارتی طور پر حل کیا جائے گا۔مطلب کہ افغان حکومت بھی اس باڑ کو فی الوقت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے! جبکہ پاکستان کی جانب سے بلکہ آئی ایس پی آر کی جانب سے ابھی گزشتہ روز ہی یہ واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان، افغانستان سرحد پر باڑ کو لگانے میں پاکستانی ’شہدا‘ کا خون شامل ہے، اس پر 94فیصد عمل ہو چکا ہے، اور یہ ناصرف مکمل ہو گی بلکہ قائم بھی رہے گی۔پاکستان کا موقف اپنی جگہ درست بلکہ 100فیصد درست ہے، کیوں کہ جب سے باڑ لگانے کا کام شروع ہوا ہے پاکستان میں 95فیصد دہشت گردی ختم ہو چکی ہے۔ لہٰذاآگے بڑھنے سے پہلے اگر ڈیورنڈ لائن کی تاریخ پر روشنی ڈالی جائے اسے پاک افغان سرحد کہا جاتا ہے جو 2640 کلومیٹر طویل ہے اور اس میں دور تک پھیلے پہاڑی سلسلے شامل ہیں۔ اس باڑ کی تنصیب کے لیے اربوں روپے مختص کیے گئے تھے اور اس منصوبے کے تحت سرحد پر نگرانی کے لیے سینکڑوں چھوٹے چھوٹے قلعے یا چوکیاں تعمیر کیے جا رہے ہیں اور جدید ریڈار سسٹم کی تنصیب بھی اس منصوبے کا حصہ ہے اور اس کا مقصد ملک کی سرحدوں کو محفوظ بنانا ہے۔اسے 128سال قبل 1893ءمیں قائم کیا گیا تھا، اگر اس سے پہلے کی بات کریں تو انگریزوں نے اس خطے کا اقتدار ریاستِ پنجاب سے 1846 میں چھینا تو سب علاقے ان کے پنجاب صوبے کا حصہ تھے۔ افغانوں اور پنجابی سکھوں کے مابین کئی جنگیں ہوئیں۔ سکھوں اور بعد میں انگریزوں کے خلاف لڑنے والے افغان خود کو مجاہدین کہلاتے تھے۔ افغانستان کے امیر دوست محمد خان کے زمانے میں افغانستان کی سرحدیں کہیں دریائے کابل اور کہیں دریائے سندھ تک جاتی تھیں۔ 1823 تک کئی افغان علاقوں پر مہاراجہ رنجیت سنگھ نے قبضہ کر لیا تھا۔امیر دوست محمد خان نے کئی بار پشاور اور دیگر کھوئے ہوئے علاقوں کو بازیاب کرانے کی کوشش کی۔ فیصلہ کن لڑائی 30 اپریل 1837 کو جمرود کے مقام پر ہوئی۔ افغان بہت بڑا لشکر لے کر حملہ آور ہوئے تھے۔ اس کی قیادت امیر دوست محمد خان کے بیٹے وزیر اکبر خان کر رہے تھے۔ سکھ فوج کے سربراہ مشہور جرنیل ہری سنگھ نلوا تھے۔ افغانوں کا پلڑا بھاری رہا۔ دست بدست لڑائی ہوئی، وزیر اکبر خان نے ہری سنگھ نلوا کو میدانِ جنگ میں قتل کر دیا۔ پسپائی کے بعد اور سپہ سالار کے مرنے کے باوجود سکھ ایسا لڑے کہ افغانوں کے چھکے چھوٹ گئے۔ اس کے بعد ان کو کبھی جرا¿ت نہ ہوئی کہ دوبارہ جنگ کر سکیں۔ رنجیت سنگھ کے دور میں افغانوں پر یہ الزام بھی لگایا جاتا تھا کہ وہ پنجاب کے علاقوں میں آ کے لوٹ مار کرتے تھے۔ یہاں تک کہ احمد شاہ ابدالی بھی ملتان میں پیدا ہوا تھا۔ اس لیے اس لوٹ مار سے نجات حاصل کرنے کے لیے رنجیت سنگھ نے ان علاقوں پر قبضہ کیا اور ان سے لڑائی کی۔ پھر مہاراجہ رنجیت سنگھ کا 1839 میں انتقال ہوا تو انگریزی حکومت کی پنجاب کو ہڑپ کرنے کی سازشیں زور پکڑنا شروع ہو گئیں۔ آخر کار وہ پنجاب پر قابض ہو گئے۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ رنجیت سنگھ کے زمانے سے ہی پشتون تین علاقوں میں تقسیم ہو گئے۔ دو تہائی پاکستان میں، ایک تہائی افغانستان اور کچھ اضلاع بلوچستان میں۔ لیکن پنجاب کو ہتھیانے کے ایک سال بعد انہوں نے شاہ شجاع کو، جو برسوں سے لدھیانہ میں انگریزی حکومت کے مہمان تھے، آگے کرکے ایک بڑی فوج افغانستان پر حملے کیلئے براستہ ریاست بہاول پور اور سندھ، بلوچستان اور قندھار روانہ کی۔ اس جنگ میں انگریزوں کو فتح ہوئی اور کٹھ پتلی حکومت بھی قائم کی گئی، مگر چند سالوں کے بعد جو ہوا، اس کی المناک داستان انگریز آج تک نہیں بھولا۔ مقصد تھا افغانستان کو روسی مداخلت سے محفوظ رکھنا۔ تقریباً ایک صدی سے کہیں زیادہ دو بڑی طاقتوں کے مابین افغانستان اور مرکزی ایشیا میں ”عظیم کھیل“ کھیلا گیا۔ دوسری انگریز افغان جنگ 1878 کے بعد امیر عبدالرحمن خان کو تخت پر بٹھایا گیا۔پھر روس نے 1885 میں افغانستان کے محدود علاقوں پر قبضہ کیا تو برطانیہ نے روس پرزور دیاکہ سرحدوں کا تعین کریں۔ انہوں نے اس مقصد کیلئے مشترکہ کمیشن بنایا اور اگلے دو سالوں میں سرحد قائم کردی۔اس مقصد کیلئے امیر عبدالرحمن کی رضامندی حاصل کرنے کے بعد سر مورتیمر ڈیورنڈ (Mortimer Durand) کو 1893 میں ایک وفد کے ہمراہ کابل روانہ کیا گیا۔ وہاں اس وفد کا قیام تین ماہ رہا۔ نقشے بنانے والے برطانوی حکومت کی طرف سے تھے، وہیں بنے، لیکن زمین پر لکیریں مشترکہ طور پر اس کے بعد کھینچی گئیں۔ پاکستان نے آزادی پر وہی علاقے اور سرحدیں حاصل کیں۔ بعد ازاں ڈیورنڈ لائن پر دونوں ممالک کے درمیان ہلکی پھلکی نوک جھونک بھی جاری رہتی ، جیسے 70 کی دہائی میں پاک افغان سرحدی تنازعہ شدت اختیار کر گیا تھا، تو شہنشاہ ایرا ن ان دنو ں ہمارے خطے کا امریکہ کی جانب سے تعینات تھانے دار شمار ہوتا تھا۔اس کے دباﺅ کے تحت ذوالفقار علی بھٹو اور سردار داﺅد کی حکومتوں کے درمیان مذاکرات کا طویل سلسلہ شروع ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے حامی اصرار کرتے رہے کہ سردار داﺅد کو ڈیورنڈ لائن تسلیم کرنے کے لئے رضا مند کرلیا گیا تھا۔جولائی 1977میں لیکن جنرل ضیا پاکستان میں اقتدار پر قابض ہوگئے۔ اپریل 1978میں افغانستان کے کمیونسٹ فوجی رہ نماﺅں نے بھی ”انقلاب“ برپا کردیا اور شہنشاہ ایران کے خلاف امام خمینی کی قیادت میں بھی انقلابی تحریک کامیاب ہوگئی۔ ان تمام واقعات سے گھبرا کر سوویت یونین کی افواج دسمبر1979میں افغانستان پر قابض ہوگئیں۔اور پھر جنرل ضیاءنے بھی ”جہاد“ کا اعلان کر دیا۔ جس کے بعد ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ ایک بار پھر پس پشت چلا گیا۔ اور اب جبکہ ایک بار پھر طالبان حکومت کے آنے کے بعد ہر گزرتے دن ڈیورنڈ لائن کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جا رہی ہے تو اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں سمجھنا چاہیے کہ طالبان اشرف غنی یا حامد کرزئی نہیں ہیں جن کے ادوار میں نا صرف پاکستان میں دہشت گرد بھیجے جاتے تھے، پاکستان مخالف کارروائیاں کی جاتی تھیں بلکہ سرحد پر فائرنگ بھی کی جاتی تھی۔ طالبان کے دور میں خالی باڑ ہٹائی جا رہی ہے اور ابھی تک یہ بھی واضح نہیں ہے کہ یہ طالبان کے لوگ ہیں یا طالبان کی صفوں میں شامل حامد کرزئی اور اشرف غنی کی باقیات ایسا کر رہی ہیں۔ تاہم کیونکہ طالبان نے ابھی تک ایسے لوگوں کے خلاف سخت کارروائی نہیں کی، پاکستان میں یہ تاثر ہے کہ شاید طالبان بھی ایسے عناصر کی خاموش حمایت کر رہے ہیں۔ لہٰذااس حوالے سے پاکستان کو کسی سطح پر کوئی جھول دکھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں طالبان کو سفارتی چینلز کے طور پر یہ بات واضح کر دینی چاہیے کہ پاکستان میں اس کے لیے بہت بڑے پیمانے پر عوام کی حمایت موجود ہے اور پاکستان کے ادارے اور عوام دونوں چاہتے ہیں کہ اس باڑ کو لگایا جائے۔ تاہم ہمیں طالبان کو ان کا مفاد بھی سمجھانا چاہیے اور انہیں بتانا چاہیے کہ اگر یہ باڑ لگائی جاتی ہے تو طالبان مخالف عناصر پاکستان نہیں آ سکیں گے اور یہاں سے وہ کسی دوسرے ملک نہیں بھاگ سکیں گے۔ اس کے علاوہ مہاجرین کے بہاو¿ کو بھی روکا جا سکتا ہے اگر مہاجرین کا بہاو¿ بڑھ جاتا ہے تو اس سے دنیا میں یہ تاثر جائے گا کہ طالبان اپنے مخالفین پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں اس لیے وہ بھاگ رہے ہیں۔اور پھر یہ بھی کہ اگر بھارت اپنی سرحدیں مضبوط کرنے کے لیے کنٹرول لائن پر باڑ لگا سکتا ہے تو پھر پاکستان کیوں نہیں؟ اس لیے ڈیورنڈ لائن کو فی الوقت ”امن باڑ“ کا نام دیا جائے اور اس کے لیے طالبان حکومت کو قائل کیا جائے، سفارتی کوششوں میں تیزی لائی جائے تاکہ طالبان کے آنے کے بعد کم از کم ایک طرف کا بارڈر تو محفوظ ہو جائے! #Pakistan #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan