نوازشریف کو حقیقت میں واپس آجانا چاہیے!

چلی میں بھی تبدیلی کی ہوا چلی اور ایک 35سالہ نوجوان گیبرئیل بورک ملک کا صدر بن گیا، مسٹر بورک نے صدارتی انتخابات کے دوسرے راو¿نڈ میں انتہائی دائیں بازو کے حریف ہوزے انتونیو کاسٹ کو حیران کن بڑے فرق سے شکست دی، جس سے ملک کی سیاسی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا۔35 برس کے نوجوان نے ایک ایسے ملک کے لیے بڑی بڑی آئینی تبدیلیوں کا وعدہ کیاجو حالیہ برسوں میں عدم مساوات اور بدعنوانی کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہروں سے لرز اٹھا تھا۔جب گیبریئل بورک نے اپنے بائیں بازو کے بلاک کی جانب سے صدر کے لیے انتخاب لڑنے کے ٹکٹ کا پارٹی انتخاب جیتا تو انھوں نے ایک دلیرانہ عہد کیا۔ انھوں نے کہا کہ ”اس ملک کو بدلنے والے نوجوانوں سے مت ڈرو۔“ وہ کہتے ہیں کہ اس ملک میں عدم مساوات بے انتہا ہے،ہم جانتے ہیں کہ امیروں کے لیے انصاف اور غریبوں کے لیے انصاف اورہے، اور ہم مزید اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ چلی کے غریب عوام عدم مساوات کی قیمت ادا کرتے رہیں۔مسٹر بورک کو نہ صرف ایک منقسم ملک کا سامنا ہے بلکہ ایک ٹوٹے ہوئے پارلیمانی نظام، پریشان سرمایہ کار اور ایک سست معیشت کا بھی سامنا ہے جو حالیہ سیاسی ہلچل اور وبائی امراض کا نتیجہ ہے۔لیکن بورک پرعزم ہے اور کچھ کرنے کی صلاحیت سے مالامال ہے۔ بلکہ وہ اپنی جوانی کو ملک کے لیے Utiliseکرنا چاہ رہا ہے۔ یہ خبر چلی کے عوام کے لیے ایک اچھی خبر ہے کہ اُنہیں ایک نوجوان قیادت میسر آئی لیکن اس کے برعکس یہاں وہی گھسی پٹی خبریں ہیں کہ سابقہ وزیر اعظم میاں نوازشریف پاکستان آرہے ، فلاں سیاستدان اُنہیں لینے جا رہے ہیں، یا جب وہ آئیں تو اُن کا بھرپور استقبال کیا جائے گا، یا اُنہیں جیل میں ڈال دیا جائے گا وغیرہ وغیرہ پہلی بات تو یہ ہے کہ یا تو یہاں جواں سال قیادت کا بحران پیدا ہوچکا ہے،تبھی ہم آزمائے ہوئے سیاستدانوں پر اکتفا کیے بیٹھتے ہیں، جبکہ دوسری بات یہ ہے کہ اگر وہ آرہے ہیں تو اس میں اتنی ہائپ یا اس خبر کو اتنا بڑھاوا دینے کی کیا ضرورت ہے۔ حد تو یہ ہے کہ جب ن لیگ والے اُن کے آنے کے بارے میں بیان داغتے ہیں تو حکومتی بینچوں سے بھی ترکی بہ ترکی جواب آتا ہے جس سے بحث مزید طول پکڑ لیتی ہے۔ حیرت ہے کہ ان باتوں کا آغازکہیں اور سے نہیں ہوا بلکہ اس وقت ہوا ، جب وزیر اعظم عمران خان نے اپنی پارٹی کے اہم رہنماوں کے ساتھ اجلاس میں یہ کہا کہ سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف کی وطن واپسی کےلئے راستے نکالے جا رہے ہیں اور ان باتوں کو تقویت اس وقت ملی ، جب عمران خان نے صحافیوں کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ نواز شریف صرف ڈیل سے واپس آئیں گے۔ بقول شاعر وہ جہاں خاک سی اُڑتی ہے وہیں پر لکھ دیں چمک سکتا ہے ہم جو اک شعر کسی دستِ حسیں پر لکھ دیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسی کوئی ڈیل ہو رہی ہے اور اگر ہو رہی ہے تو اس کے نتیجے میں پاکستان کا نیا سیاسی منظر نامہ کیا بن سکتا ہے ؟ اس بات میں الجھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ ڈیل کیا ہے اور کس کے ساتھ ہوتی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشیخ احمد نے کسی لگی لپٹی کے بغیر کہہ دیا ہے کہ ” ہر سیاسی جماعت یہ چاہتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اس کے سرپر ہاتھ رکھے۔ “ شیخ رشید احمد نے واضح کر دیا ہے کہ حکومت میں آنے کے لئے ہر سیاسی جماعت کو اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کرنا پڑتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عمران خان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور وہ اپنی مدت پوری کرے گی۔ شیخ رشید احمد کی دوسری بات بھی درست ہے کیونکہ اگر کوئی ڈیل ہوئی تو موجودہ حکومت کی باقی رہ جانے والی مدت کےلئے نہیں ہو گی بلکہ آئندہ عام انتخابات کے ذریعے بننے والی حکومت کیلئے ہو گی ، جس کی مدت پانچ سال ہو گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں جمہوری حکومتیں کسی ڈیل کے ذریعے بنتی ہیں ؟ اس کے لیے ہم ماضی میں چلتے ہیں، اور یہ پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا واقعی ایسا ہوتا رہا ہے۔ واجد شمس الحسن کو تو آپ جانتے ہی ہیں، یہ وہ شخصیت تھیں جن پر محترمہ بے نظیر بھٹو حد سے زیادہ یقین رکھتی تھیں، محترمہ کسی بھی مسئلے میں پڑ جاتیں تو واجد شمس الحسن اُن کی رہنمائی بھی کرتے ۔ 1972ءمیں بھی واجد وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے اس سرکاری وفد کا حصہ تھے جس نے شملہ معاہدے کے لیے بھارت کا دورہ کیا تھا۔ وہ پاکستان کی ایک چلتی پھرتی سیاسی تاریخ تھے۔اُن کی کتاب ”بھٹو خاندان میری یادوں میں“ میں وہ بڑی تفصیل سے پاکستان کے سیاسی حالات میں بیرونی طاقتوں کے اثر اندازہونے پر قلم قاری کرتے ہیں۔ واجد صاحب لکھتے ہیں” پاکستان پیپلز پارٹی سے عقیدت رکھنے والے ایک صاحب رحمن چشتی لندن کی ایک کاو¿نٹی میں کونسلر تھے، یہ کسی وفد کے ساتھ پاکستان آئے، اسلام آباد میں ان کی ملاقات برطانیہ کے ہائی کمشنرسے ہوئی، رحمن چشتی نے ہائی کمشنر سے کہا ’پاکستان کے حالات خراب ہیں،برطانیہ کی حکومت جنرل مشرف پر الیکشن کرانے کے لیے پریشر کیوں نہیں ڈالتی؟‘ برطانوی ہائی کمشنر نے کہا ”میں یہ کوشش کر سکتا ہوں لیکن مجھے پتا ہونا چاہیے بے نظیر بھٹو کیا چاہتی ہیں‘ رحمن چشتی نے کہا’بے نظیر الیکشن چاہتی ہیں،دوسرا جنرل مشرف اگر صدر رہنا چاہتے ہیں تو پھر انھیں وردی اتارنا ہو گی۔اس کے بعد رحمن چشتی لندن میں بے نظیر بھٹو اور واجد شمس الحسن سے ملے اور انھیں ہائی کمشنر کا پیغام دیاکہ بی بی برطانوی وزیر خارجہ (فارن سیکریٹری) جیک اسٹرا کو خط لکھ دیں۔ واجد شمس الحسن نے بے نظیر بھٹو کی طرف سے جیک اسٹرا کو خط لکھ دیا، جیک اسٹرا نے چند دن بعد بے نظیر بھٹو کو ملاقات کا وقت دے دیا، برطانوی وزیر خارجہ نے ملاقات میں بتایا” ہماری پالیسی تبدیل ہو گئی ہے‘ ہم چاہتے ہیں پاکستان میں انتخابات ہوں اور تمام پارٹیوں کو ان میں حصہ لینے کی اجازت ہو“ جیک اسٹرا کا کہنا تھا ”جنرل مشرف اس شرط پر الیکشن کرانے کے لیے تیار ہیں آپ الیکشن میں حصہ نہ لیں اور پاکستان بھی نہ جائیں“ محترمہ نے یہ شرط ماننے سے انکار کر دیا اور کہا ”میری پارٹی اس وقت تک الیکشن نہیں لڑے گی جب تک میں الیکشن مہم نہ چلاو¿ں“ اس پر جیک اسٹرا نے پوچھا”آپ کے امریکا سے کیسے تعلقات ہیں؟“ بے نظیر نے جواب دیا ”جیسے آپ کے ہیں“ جیک اسٹرا نے ملاقات کے آخر میں کہا ”میں آپ کو امریکا سے بات کر کے بتاو¿ں گا“ واجد شمس الحسن نے انکشاف کیا، جیک اسٹرا کے ساتھ ملاقات کے چند دن بعد امریکی وزیر خارجہ کونڈو لیزا رائس لندن آئی اور اس نے لندن میں امریکا کے ڈپٹی ہائی کمشنر کے گھر بے نظیر بھٹو سے ملاقات کی‘ یہ ملاقات تین گھنٹوں پر مشتمل تھی۔اس ملاقات کے تھوڑے عرصے بعد بے نظیر بھٹو اور کونڈو لیزا رائس کے درمیان امریکا میں خفیہ ملاقات ہوئی‘ اس خفیہ ملاقات کے چند ہفتے بعد امریکا کے نائب وزیر خارجہ رچرڈ باو¿چر بے نظیر بھٹو سے ملاقات کے لیے دبئی آئے‘ بے نظیر اور واجد شمس الحسن کو ایک شاپنگ مال میں بلوایا گیا‘ پارکنگ میں امریکی ایمبیسی کی گاڑی کھڑی تھی‘ یہ دونوں گاڑی میں بیٹھ کر رچرڈ باو¿چر کے پاس پہنچ گئے، باو¿چر نے بتایا، جنرل مشرف آپ کے کسی نمایندے سے براہ راست ملاقات کرنا چاہتے ہیں،بے نظیر نے جواب دیا، میں جنرل مشرف سے خود ملاقات کروں گی، رچرڈ باو¿چر بے نظیر سے ملاقات کے بعد اسلام آباد چلا گیا اور وہاں سے واجد شمس الحسن کو ای میل کی جنرل مشرف بے نظیر سے ملاقات کے لیے تیار ہیں۔بے نظیر بھٹو نے اوکے کر دیا، جنرل مشرف کا فون آیا اور ابوظہبی کے سلطان کے محل میں میٹنگ طے ہو گئی،27 جولائی 2007 کو میٹنگ ہوئی‘ بے نظیر کے ساتھ رحمن ملک اور مخدوم امین فہیم جب کہ جنرل مشرف کے ساتھ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اشفاق پرویز کیانی اور پرنسپل سیکریٹری طارق عزیز تھے تاہم دونوں کی ملاقات ون ٹو ون تھی اور یہ ساڑھے چار گھنٹے جاری رہی، جنرل مشرف چاہتے تھے بے نظیر پاکستان نہ آئیں۔یہ اس کے عوض ان کے تمام مقدمات ختم کرنے کے لیے تیار تھے مگر محترمہ ہر صورت پاکستان جانا چاہتی تھیں‘ جنرل مشرف نے آخر میں بے نظیر کو سینیٹ میں آنے کی آفر کر دی لیکن بے نظیر اپنی بات پر قائم رہیں، جنرل مشرف نے بی بی سے کہا،میں پارلیمنٹ میں بل لا کر چیف جسٹس کی مدت ملازمت تین سال کرنا چاہتا ہوں یوں میں جسٹس افتخار محمد چوہدری سے جان چھڑا لوں گا، آپ مجھے سپورٹ کریں لیکن بی بی نے ہنس کر انکار کر دیا۔ پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر ان تمام معاملات کو دیکھ رہا تھا، معاملات چلتے رہے اور پھر جنرل پرویز مشرف محترمہ کو تیسری بار وزیراعظم بنانے پر بھی راضی ہو گئے اور الیکشن کرانے پر بھی‘ یہ خوش خبری کونڈو لیزا رائس نے بے نظیر بھٹو کو فون کر کے سنائی اور یوں محترمہ بے نظیر بھٹو18 اکتوبر 2007 کو پاکستان واپس آگئیں۔ الغرض ہمیں اس بات سے اندازہ لگا لینا چاہیے کہ ہمارے فیصلے کس قدر نچلی سطح پر ہوتے ہیں، یعنی یہ امریکا و برطانیہ کے صدور و زیر اعظم تک نہیں بلکہ ہائی کمشنر، یا خارجہ تک ہوتے ہیں، اس لیے ہمیں ان باتوں پر زور نہیں دینا چاہیے کہ کون آرہا ہے یا کون جا رہا ہے۔ اور پھر یہ نا تو چلی ہے اور نہ چلی جیسے عوام! اس لیے اب نوازشریف کو بھی چاہیے کہ وہ آئیں مقدمات کا سامنا کریں اور پھر سے سرخرو ہوجائیں کیوں کہ اگر ہمارے ”مقدر“ میں آپ لکھ دیے گئے ہیں تو اس ہونی کو کوئی نہیں ٹال سکتا، کیوں کہ لکھنے والوں کے پاس بھی اتنا وقت نہیں کہ وہ بار بار سکرپٹ لکھیں، اور اس میں تبدیلیاں کریں۔ کیوں کہ لکھے گئے سکرپٹ میں چھوٹی موٹی تبدیلی تو ہو سکتی ہے مگر کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہ رکھی جائے! اس لیے اُنہیں فی الوقت آجانا چاہیے تاکہ اُن کے لیے باقی کے راستے ہموار کرنے میں ”بڑوں“ کو کوئی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے!