اگر ممکن ہو تو قوم کی فرسٹریشن ختم کی جائے!

ہر سال کی طرح اس سال بھی ”ہیپی نیو ائیر نائٹ “ پر لوگ جوق در جوق باہر نکل رہے تھے ۔ اس رات لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر اسے چاند رات بنادیا تھا۔ خوشی کے ان لمحات میں گھر کی چار دیواری کے درمیان رہنے کے بجائے ہلہ گلہ کرنے کے موڈ میں تھے، مارکیٹوں میںعارضی طور پر لگائے گئے اسٹالوں پر خواتین اور بچے خریداری کرتے دکھائی دیے۔ قدم قدم پر لگائے گئے ان اسٹالوں پر بجتے گانے لوگوں کا خون گرما رہے تھے۔ موسم انتہائی سرد ہونے کے باوجود ہر طرف جشن کا سا سماں تھا۔ ہر کوئی اس پررونق رات میں ہوتی گہماگمی کے مناظر سے اپنی آنکھیں خیرہ کر رہا تھا اور پھر رات بارہ بجتے ہی جس نے جس طرح چاہا خوشی منائی۔ سرکاری سطح پر کسی انٹرٹینمنٹ یا فائر ورک کا پروگرام اور نجی سطح پر فائر ورک کی پابندی ہونے کی وجہ سے لوگ سڑکوں پر مارے مارے پھر رہے تھے، کہیں کہیں اکا دکا جگہ پر آتش بازی ہورہی تھی اور کہیں کہیں فضائیں فضائیں ”پاکستان زندہ باد“ اور ”ہیپی نیو ائیر“ کے نعروں سے گونج رہی تھیں۔ نوجوان بھی ڈانس کرتے ،موٹر سائیکلوں کے سائیلنسر نکال کر کبھی اِدھر تو کبھی اُدھر چکر لگاتے دکھائی دے رہے تھے۔ جب اتنا کچھ ہورہا ہو ایسی صورت میں رائیڈرز بھلا کیسے پیچھے رہ سکتے تھے! ان کا وکھرا ہی انداز تھا، یعنی وہ اپنی موٹر سائیکلوں کو ہوائی جہاز بناکر اڑانے کی ناکام کوششوں میں مصروف تھے، انہیں دیکھ کر لگتا تھا جیسے وہ 2021 کو الوداع کہنے کے بجائے اپنی زندگی کو الوداع کہہ رہے ہوں۔پھر کچھ ہی دیر بعد فضاءمیں ہوائی فائرنگ شروع ہو گئی گولیوں کی تڑتڑاہٹ میں کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا شدید فائرنگ کی وجہ سے لوگ انتہائی خوف زدہ ہو گئے تھے۔ پھر پولیس بھی پورے شہر میں گشت کر رہی تھی، پولیس کو دیکھ کر تو ایسے لگ رہا تھا جیسے ہم کسی چھاﺅنی میں رہ رہے ہیں، وہ نوجوانوں کو پکڑ رہی تھی، جگہ جگہ ناکے لگا کر تلاشیاں لی جا رہی تھیں اور کہیں کہیں مال بھی بٹورا جا رہا تھا۔ اس بار ایسا شاید اس لیے بھی تھا کہ سرکار نے ہیپی نیو ائیر نائٹ پر فائر ورک اور دیگر میوزیکل شوز وغیرہ پر پابندی لگا رکھی تھی۔ کوئی بھی نہیں جانتا کہ جب دنیا بھر میں نئے سال کی آمد کی خوشی اچھے انداز میں منائی جا رہی تھی تو ہماری حکومت نے فائر ورک اور میوزیکل کنسرٹس کیوں رکوا دیے تھے۔ البتہ جس کا نقصان یہ ہوا کہ لاہور کی تمام سڑکیں جام ہوگئیں، لوگوں نے اپنے تئیں انجوائے کرنا شروع کردیا، اور پھر جب لوگ اپنے تئیں انجوائے کرنا شروع کرتے ہیںتو اُس میں پھر ہوائی فائرنگ ، آتش بازی، ون وہیلنگ یا پھر ہلڑ بازی ہوتی ہے، جو کسی بھی مہذب معاشرے کو زیب نہیں دیتی۔ اور پھر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نئے سال کی پہلی رات پولیس اور عوام کے درمیان آنکھ مچولی جاری رہی۔ نئے سال کی اس ساری منظر کشی کا مقصد صرف یہ ہے کہ جو چیز ہماری سمجھ میں آئی وہ یہ ہے کہ ہمارے لوگ خاص طور پر فرسٹریشن کا شکار ہوچکے ہیں، وہ باہر نکل کر کچھ دیر کے لیے تفریح چاہتے ہیں، وہ پریشانیوں سے کچھ دیر کے لیے آزاد ہونا چاہتے ہیں، وہ مہنگائی، کورونا، آلودگی اور کئی بیماریوں سے تنگ آچکے ہیں، وہ ہلکا پھلکا انٹرٹینمنٹ چاہتے ہیں، جو اُنہیں کسی صورت میسر نہیں آرہا۔ سب جانتے ہیں کہ ہم میلوں ٹھیلوں والی قوم ہے، جس کا کلچر بڑا واضع ہے، ہمارے ہاں اجتماعی کھیلیں شروع ہی سے ہمارے کلچر کا حصہ رہی ہیں، اسی لیے ہماری قوم فرسٹریشن کا شکار ہو چکی ہے، یقین مانیں آج تک کوئی اس نتیجے پر نہیں پہنچ سکا کہ ہمارا نوجوان فرسٹریشن کا شکار کیوں ہے؟ حالانکہ یہ بہت اہم سوال ہے۔ ہمارانوجوان جب دیکھتا ہے کہ ماڈل ٹاون سانحہ ہو یا سانحہ ساہیوال، مجید اچکزئی کا کیس ہو یا شاہزیب قتل کیس، فراز شاہ کا سیکیورٹی اداروں کے ہاتھوں ان کیمرہ قتل ہو یا اُسامہ ستّی کا بہیمانہ قتل اور پھر کسی مظلوم کو انصاف میسّر نہیں، عدم مساوات اور انصاف کی عدم فراہمی اور بڑھتی ہوئی لاقانونیّت ہے تو وہ فرسٹریشن کا شکار ہو جاتا ہے، اُس میں مایوسی بڑھ جاتی ہے۔ اسے مایوسی سے نکالنے کے لیے نا تو حکومت کوئی کام کر رہی ہے اور نہ ہی اس حوالے سے ملک بھر میں کوئی تھنک ٹینک موجود ہے، حالانکہ دنیا بھر کی حکومتیں نوجوانوں کے لیے خاص طور پر مقابلوں کی فضاءقائم کرتی ہے۔ آپ دور نہ جائیں اپنے ہمسایہ ملک بھارت ہی کو دیکھ لیں، بھارت سکول کی سطح پر مقابلوں کا انعقاد کروا کی ہی دنیا میں اپنا نام روشن کر رہا ہے، پھر کلچرل فیسٹیولز کا انعقاد کیا جائے، یا اس کے ساتھ ساتھ میلوں ٹھیلوں کا انعقاد کیا جائے اور پھر سب سے بڑھ کر کھیلوں کا انعقاد کیا جائے، افسوس تو اس بات کا ہے کہ گزشتہ ساڑھے تین سال سے اس ملک پر ”کپتان“ کی حکومت ہے۔ لہٰذا”کپتان “ کچھ اور نہیں تو کم از کم کھیلوں کو فروغ دینے کے حوالے سے اقدام کر لےں۔ کیوں کہ ایسا کرنے سے نوجوان نسل کا ٹیلنٹ بروئے کار لایا جا سکتاہے۔ خان صاحب جانتے ہیں کہ 50اور60کی دہائی میں بھی پاکستان غریب ملک تھا لیکن اُس وقت پاکستانی قوم کے حوصلے بلند تھے۔ اُس وقت چکوال کے گاو¿ں جنڈ اعوان کے رہنے والے حوالدار عبدالخالق کو 1954ءکے ایشیائی کھیلوں میں سو اور دو سو میٹر کی ریس میں دوڑتے ہوئے دیکھ کر جواہر لعل نہرو وسحرزدہ ہو کر رہ گئے تھے اور نہرو نے حوالدار عبدالخالق کو ”ایشیاءکا پرندہ“قرار دیا۔ اسی پاکستانی اتھیلیٹ کو ایشیاءکا ”تیز رفتار ترین انسان“ کا خطاب بھی ملا۔ عبدالخالق نے 1956ءمیں میلبوون کے اولمپکس میں بھی حصہ لیا۔ سو اور دو سو میٹرز کی ریس میں سلور میڈل حاصل کرلیا۔ مجموعی طور پر حوالدار عبدالخالق نے دوڑوں میں چھتیس(36) سونے اور سولہ (16) چاندی کے تمغے حاصل کئے۔حوالدار یونس بھی فوج سے ہی تھا اس نے 1973ءکے اولمپکس میں چار سو میٹر کی ریس میں حصہ لیا اور سونے کا تمغہ حاصل اپنے نام کیا۔ صوبیدار رازق نے ایشیائی گیمز میں 110 میٹرز کی رکاوٹوں والی دوڑمیں سونے کا تمغہ لیا۔ایک اور پاکستانی دیہاتی نوجوان اللہ داد نے 1973ءکو اولمپکس میں جیولین تھرو میں سونے کا تمغہ حاصل کیا۔ لیکن اُس کے بعد ہماری نوجوان نسل سے آہستہ آہستہ جذبہ ختم کر کے ہواﺅں کا رُخ تبدیل کر دیا گیا۔ جس کے بعد حالات یہ ہیں کہ آج پاکستان میں چھوٹے بڑے 48 اقسام کے کھیل کھیلے جاتے ہیں جو بین الاقوامی سطح پر رجسٹرڈ بھی ہیں مگر کرکٹ کے علاوہ ہم کسی بھی کھیل میں ٹاپ 10 پوزیشن میں شامل نہیں ہیں۔ قومی کھیل ہاکی میں ہم 22ویں، اسکواش میں 20 ممالک کی فہرست میں 19ویں اور فٹ بال میں ہم 150ویں نمبر سے بھی نیچے ہیں۔ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے،ہاکی میں پاکستان کی شرکت 16 اولمپکس میں رہی ہے جن میں سے 10 اولپمکس میں قومی ٹیم ابتدائی تین پوزیشن پر براجمان رہی ہے۔ یعنی 3 میں سونے، 3 میں چاندی اور چار اولمپکس میں کانسی کے ایوارڈ جیتے۔اس کے علاوہ ماضی میں قومی ٹیم نے 3 بار چیمپئنز ٹرافی، 8 بار ایشیئن گیمز، 3 بار ایشیاءکپ، 2 مرتبہ ایشیئن ہاکی چمپئین ٹرافی کے ٹائٹل میں گولڈ میڈلز اور بڑے مقابلوں کی تاریخ میں تقریباً 70 میڈلز اپنے نام کئے۔ لیکن آج کی نوجوان نسل قومی کھیل ہاکی بتاتے ہوئے بھی شرم محسوس کرتی ہے کیوں کہ المیہ یہ ہے کہ ہماری ٹیم آج کسی بھی بڑے ٹورنامنٹ کے لیے کوالیفائی بھی نہیں کر سکتی۔ بہرحال اگر پاکستانی قوم کو مایوسی اور فرسٹریشن سے نکالنا ہے تو کم از کم کھیلوں کو ہی فروغ دے دیں، اس میں نہ تو فنڈز درکار ہیں اور نہ ہی لیبر۔ بلکہ بہترین حکمت عملی اور کم لاگت سے پاکستان بھر کے نوجوانوں کے ٹیلنٹ کو سامنے لا کر بہترین نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ فنڈز کا میں نے اس لیے کہا کیوں کہ یہاں کھیلوں کی ایک الگ وزارت ہے۔ ایک سپورٹس بورڈ بھی ہے اولمپکس کھیلوں میں حصہ لینے کے لیے ایک کمیٹی بھی یہاں موجود ہے۔ کھیلوں کے فروغ کے لیے سالانہ اربوں روپے کا بجٹ بھی مختص کیا جاتا ہے۔ تب بھی کوئی نہیں یہ بات جانتا کہ اربوں روپے کا بجٹ کہاں جاتا ہے؟ اس کا کوئی آڈٹ ہوتا ہے! کھیل کے شعبوں میں مسلسل پسپائی اور ناکامی پر کس کا احتساب بھی ہوتا ہے؟ بہرکیف اگر ہم جدید دور میں بھی کھیلوں میں بہت پیچھے ہیں ، تو ہم کسی شعبے میں بھی نہیں اُٹھ سکتے، افسوس تو اس بات پر ہے کہ شہروں میں کسی نئی سوسائٹی میں کھیلوں کے لیے گراﺅنڈز مختص نہیں کیے جاتے، حالانکہ سوسائٹیوں کو پاس کرنے والی اتھارٹیاں بھی اس چیز کی پابند نہیں کر رہیں کہ گراﺅنڈز لازمی جزو ہیں،اور پھر اہم بات یہ کہ کھیلوں کے لیے کوئی روڈ میپ بھی نظر نہیں آرہااور پھر لاہور میں سابقہ دور میں جن گراﺅنڈز پر قبضہ کیا گیا تھا، وہ آج تک بحال نہیں ہوسکیں، حالانکہ کراچی میں سپریم کورٹ اچھا کام کر رہی ہے، وہاں فٹ پاتھوں پر قبضے، گراﺅنڈز پر قبضے اور رہائشی قبضے چھڑوا رہی ہے ، اگر ایک نظر کرم لاہور پر بھی ہو جائے تو یہاں بھی 70سے زائد کھیل کے میدانوں پر یا تو پلازے کھڑے کر دیے گئے ہیں یا کوئی نہ کوئی سرکاری و نجی تعمیرات قائم کر دی گئی ہیں، اُنہیں واگزار کروایا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ ہمارا نوجوان اُسی وقت باہر نکلے گا جب اُسے سہولتیں میسر ہوں گی ۔ ورنہ وہ مایوس ہو کر یا تو جرائم پیشہ گروہ کا حصہ بن جائے گا یا دیہاڑی دار مزدور بن جائے گا اور پھر اپنے بچوں کی بھی صحیح انداز میں تربیت نہیں کر سکے گا۔ جس کا خمیازہ پوری قوم بھگتے گی ، جو شاید آج تک بھگت بھی رہی ہے! #Pakistan #If possible, the frustration of the nation should be ended! #Talkhiyan #Ali Ahmed Dhillon