نئے سال میں ادارے مضبوط کریں شخصیات نہیں!

نیا سال شروع ہونے کو ہے، مگر ہر سال کی طرح اس سال کے آخر میں بھی ہم غمزدہ ہیں کہ کسی ادارے نے ترقی نہیں کی، بلکہ ترقی کا پہلا زینہ بھی طے نہیں کیا، حتیٰ کہ کچھ اداروں نے تو یہ بھی جاننے کی کوشش نہیں کی کہ ”ترقی“ اور بہتری ہوتی کیا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس ہر طرف شخصیت پرستی کا طوطی بولتا رہا، ہر پارٹی میں اوپر سے نیچے تک شخصیت پرستی کا راگ چلتا رہا۔ حتیٰ کہ تحریک انصاف کے چیئرمین اور وزیر اعظم عمران خان کو اپنی پارٹی تحلیل کرنا پڑگئی۔ اس کی بنیادی وجہ تو خیبرپختونخواہ کے بلدیاتی انتخابات میں شکست تھی مگرمزید تحقیقات ہوئیں تو پتہ چلا کہ پارٹی کے اندر پارٹیاں بن چکی تھیںجو شخصیت پرستی کے خول سے باہر نہیں نکل رہی تھیں، اور جس شخصیت کو پی ٹی آئی کا حلقے میں ٹکٹ نہیں ملا اُسی نے تحریک انصاف کے خلاف مہم چلائی اور اپنی ہی پارٹی کے اُمیدوار کو شکست سے دوچار کیا۔ ویسے راقم نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ حکومت صرف عہدہ سنبھالنے سے نہیں کی جاتی، اس کیلئے کان اور آنکھیں کھلی رکھنا پڑتی ہیں۔ میرے خیال میں اگر عمران خان خیبر پختونخوا کی سپیشل برانچ کوا عتماد میں لیتے ہوئے اپنے تئیں اپنی جماعت کی ہر قصبے، ہر گاﺅں، ہر تحصیل اور تمام اضلاع میں صورتِ حال کا جائزہ لیتے اور آپس کی دھڑے بندیوں کی جامع رپورٹس سامنے رکھ کر فیصلے کرتے تو ٹکٹوں کی تقسیم کا معاملہ شخصیت پرستی کے گرد گھومنے کے بجائے بہتر ہو سکتا تھا۔ اب جبکہ پانی سر سے گزرنے ہی والا تھا، مطلب جنرل الیکشن آنے ہی والے ہیں تو خان صاحب نے پارٹی کے مفاد میں بہتر اور بولڈ فیصلہ کیا ہے۔ اور یہ بھی اچھی بات ہے کہ وہ پارٹی سے اقرباءپروری ختم کرکے اسے مضبوط بنانا چاہ رہے ہیں۔ خیر یہ ملک کے اندر بڑھتی ہوئی شخصیت پرستی کی ایک چھوٹی سی مثال تھی، جبکہ ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں، اور سرکاری اداروں میں یہی حال ہے۔اور یہ آج سے نہیں ہے آپ پاکستان کی تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں یہ آپکو اداروں کو مقدسّ گائے ثابت کرنے والوں میں ملے گی۔ یہ آپکوضیاءلحق جیسے انسان کیلئے لگائے گئے نعرے”مردِمومن مردِحق“ میں نظر آئے گی۔ یہ آپکو دہائیوں پہلے مرجانے والے زندہ بھٹو میں نظر آئے گی۔ یہ آپکو مشرف کی دس سالہ جبری حکومت کی صرف اسلئے پشت پناہی کرنے والوں میں نظر آئے گی ۔یہ آپکو زرداری جیسے کرپٹ سیاستدان کی پیپلز پارٹی کو مرحوم بی بی کی وجہ سے دئیے گئے ووٹوں میں نظر آئے گی۔یہ آپکو ڈیل کرکے سعودیہ جانے والے سیاستدانوں کے لیے لگائے گئے بینرز میں نظر آئے گی۔ یہ آپکو مذہبی رہنماﺅں کے دھرنوں میں نظر آئے گی کہ جس میں لوگ بغیر کسی وژن اور پلاننگ کے اپنے پیر کی کال پر نکل کھڑے ہوتے ہیں ۔یہ پرستش آپکو سی ایس ایس آفیسر کے مریم مظلوم کو لگائے گئے اس سلیوٹ میں نظر آئے گی جو کہ شائد اس وجہ سے لگایا گیا کہ محترمہ ،بادشاہ سلامت نواز شریف کی صاحبزادی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ یہ آج بھی آپکو پی ٹی آئی کے ورکرز میں بھی نظر آئے گی جو درجنوں غلطیاں کرنے کے بعد بھی خان صاحب کو ہر جگہ پر ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ حالانکہ شخصیات ہمیشہ نہیں رہتیں، ادارے پھر کئی سال، کئی دہائیاں اور کئی صدیوں تک چلتے رہتے ہیں۔ اگر شخصیت پرستی ہی سب کچھ ہوتا تو ملک کبھی ترقی نہ کرتے اور پھر آج تک ایران میں شاہ ایران کے انجام کو کوئی نہیں بھولا ؟ سر زمین ایران پہ انکا جینا حرام ہو گیا تھاجبکہ کوئی دوست ملک انہیں پناہ دینے کے لیے تیار نہ تھا ،شاہ ایران سے ہٹ کر دیکھا جائے تو افغانستان میں نجیب کی لاش کئی دن تک سربازار لٹکتی رہی ، لیبیا میں کرنل قذافی کا برا انجام ہوا او رقذافی کا بیٹا سیف الاسلام مال و دولت کی فراوانی کے باوجود کسمپرسی کی حالت میں گرفتا ر ہوا ، عراق کے صدر صدام حسین کے بیٹوں کو قتل کیا گیااور خود انہیں عید کی رات پھانسی پہ چڑھا دیا گیا تھا، تیونس میں صدر زین العابدین کو پورے خاندان سمیت ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑا جبکہ مصر کے صدر حسنی مبارک کو جیل کے پنجروں میں بند کیا گیا ، سعودی عرب میں شاہ فیصل کو اپنے بھتیجے نے شہید کیا ، امریکی صدر جان ایف کینیڈی کو بھی اندھی گولیوں سے بھونا گیا ، ان کے علاوہ بادشاہوں اور حکمرانوں کے عبرتناک انجام سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ اگر ادارے مضبوط نہیں ہوں گے تو بڑے عہدوں کے ساتھ بڑے دکھ بھی دیکھنے کو ملیں گے۔ حد تو یہ ہے کہ وطن عزیز میں یہ شخصیت پرستی ہی کی بدولت ہے کہ پولیس سے ملزم طاقتور ہے، عدالتوں سے مجرم طاقتور ہوچکے ہیں، نیب سے مافیا طاقتور ہے، پی آئی اے سے اُس کی یونین طاقتور ہے، ریلوے سے سٹیل مافیا زیادہ طاقتور ہے، شوگر کمیشن سے مل مافیا زیادہ طاقتورہے، ایل ڈی اے سے لینڈ مافیا زیادہ طاقتور ہے، جب تک ہم شخصیت کو چھوڑ کر اداروں کو مضبوط نہیں کریں گے، ہم ترقی نہیں کر سکیں گے۔اور پھر یہ کس قدر شرمندگی کا باعث ہے کہ اعتزاراحسن، قمر الزمان کائرہ، نیئر بخاری، فاروق ایچ نائیک جیسے سینئر سیاستدان بلاول جیسے ناتجربہ کار اور عمر میں چھوٹے سیاسی لیڈر کو جھک کر سلام کرتے ہیں، جبکہ ن لیگ میں مریم نواز اور حمزہ شہباز کو اسی شخصیت پرستی کی وجہ سے احسن اقبال، شاہد خاقان عباسی، رانا ثناءاللہ، جاوید لطیف، خواجہ آصف جیسے سینئر سیاستدان جھک کر سلام کرتے ہیں ۔ اے این پی کا بھی یہی حال ہے، یعنی سلطنت عثمانیہ یا سلطنت مغلیہ اور ہماری حکومتوں ، سیاسی جماعتوں اور اداروں میں کیا فرق ہے؟ کیا کبھی کسی نے سوچا کہ جو ملک ترقی نہیں کرتے اُن کی کیا وجوہات ہیں؟ اور جو ترقی کر جاتے ہیں اُن کے کیا راز ہیں؟ خدا کے لیے اگر ہم اپنا ترقی کا ماڈل نہیں بنا پا رہے تو ہم اُن ملکوں کو کاپی کیوں نہیں کر پارہے جن ملکوں نے ترقیاں کی ہیں،فی الوقت ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ امریکا کی ترقی کی کیا وجہ ہے؟ فرانس، جرمنی ، برطانیہ یا جاپان و چین نے ترقی کیوں کی؟میں دعویٰ کرتا ہوں کہ ان تمام ممالک کی ترقی میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ ممالک جدید دور کے ساتھ چلتے ہیں۔ اور ماضی کی صرف اُن چیزوں سے سیکھتے ہیں جو تحقیق کا باعث بنیں یا جنہوں نے متعلقہ شعبے میں ترقی کی راہ کھولی ۔ لیکن اس کے برعکس ہمارے ساتھ مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم ماضی کو کریدکر عظیم الشان بنانے کے چکر میں لگے رہتے ہیں۔ آج دنیا مریخ کا سفر شروع کرنے والی ہے،پوری دنیا ایک موبائل کے کلک پر آپ کے سامنے موجود ہے، دنیا ”ڈیجیٹل لینڈ“ کی جانب گامزن ہے، مغربی ممالک یہ لینڈ ڈیجٹیل طریقے سے ایک دوسرے کو بیچ کر اپنی ”لینڈ کرنسی“ کو مضبوط کر رہے ہیں اور ہم ہیں کہ شخصیت پرستی کے جادو سے ہی باہر نہیں نکل پار ہے ۔۔قصہ مختصر کہ دنیا میں جتنے بھی ملکوں نے ترقی کی، کسی ایک نے بھی شخصیت پرستی کی پیروی نہیں کی۔ دوسری جنگ عظیم میں وزیراعظم سر ونسٹن چرچل برطانوی عوام کا ہیرو تھا۔ اس نے حیران کن جرات، دلیری اور تدبر سے انگلش قوم کی قیادت کی اور ہٹلر کے طوفان سے بچایا۔ اس جنگ میں چرچل کی جگہ کوئی اور وزیراعظم ہوتا تو شائد جنگ کا نقشہ مختلف ہوتا۔ جنگ کے فوری بعد برطانیہ میں عام انتخابات ہوئے۔ چرچل کا خیال تھا کہ اس کی قائدانہ صلاحیتوں کے پیش نظر جیت یقینی ہے۔ اسے اپ سیٹ شکست ہوئی اور لیبر پارٹی کے ایٹلی وزیراعظم بن گئے۔چرچل نے یہ کہہ کر اقتدار منتقل کیا کہ آج ملکی ادارے مضبوط ہیں تو برطانیہ ترقی کرتا رہے گا۔ مطلب وہاں کے عوام نے بھی شخصیت پرستی کو فروغ دینے کے بجائے ”آواز کا ووٹ“ دیا اور ایٹلی کو وزیراعظم بنا دیا۔ لیکن اس کے برعکس اگر چرچل اقتدار کے ساتھ چمٹے رہتے اور اُن کی اولاد اقتدار سنبھالتی تو شاید برطانیہ آج ایک تیسری دنیا کا ملک ہوتا۔ پھر امریکی صدر اوباما ریٹائرڈ ہوئے تو وہ واپس نہیں آئے، اور نہ ہی اس نے اپنی بیٹییوں کو سیاست میں زبردستی دھکیلا، بلکہ پنٹا گون اُن کے تجربے سے استفادہ حاصل کر رہا ہے، اور وہ بھی کسی نہ کسی تھنک ٹینک کا حصہ ہیں ۔ اسی طرح صدر کلنٹن جوانی میں ہی ریٹائرڈ ہوگئے، مگر دوبارہ سیاست میں نہ آئے جبکہ ان کی بیگم ہیلری کلنٹن سیاست میں آئیں لیکن ایک سسٹم سے گزر کر سیاست میں آئیںاور صدارتی الیکشن لڑا ۔ لہٰذانئے سال میں ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ ہم جدید تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالیں گے، اپنے اداروں کو ڈھالیں گے،نئے سسٹم تلاش کریں گے، شخصیت پرستی چھوڑیں گے، اور دقیانوسی کی باتوں، حرکتوں پر مکمل کنٹرول کریں گے۔ اگر پوری دنیا سوشل میڈیا ایپس بنا کر سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو کنٹرول کررہی ہے تو ہم ایسی جدت لانے سے گریزاں کیوں ہیں؟ آپ دیکھیں بھارت اس وقت ہم سے کتنا آگے نکل چکا ہے، وہ دنیا سے سیکھ رہا ہے، دنیا بھر کی بڑی سوشل میڈیا کی کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو آفیسر انڈیا کے بن چکے ہیں ۔ لیکن وہ بھی کئی میدانوں میں پیچھے صرف اس لیے رہ گیا ہے کیوں کہ وہاں بھی کئی محاذ پر شخصیت پرستی آڑے آرہی ہے ۔ لہٰذاجس دن ہم لوگ اپنی اس پرستش کا قبلہ ادارہ،شخصیت،اور خاندان کی بجائے ایک مخصو ص وژن اور سوچ کی طرف موڑ لیں گے تو اس دن سے اس ملک کی قسمت کا قلمدان ہمارے ہاتھ میں آجائے گا اور دنیا کی کوئی طاقت بھی اس کی ترقی کے آگے نہیں ٹک سکے گی۔ اور جس دن ہم ترقی کر گئے تو ہم یہ بھی سوچنا شروع کر دیں گے کہ ہم اچھے طالب علم کیوں نہیں پیداکر رہے ، ہمارے ملک میں مقابلے کی فضاءکیوں ختم ہو کر رہ گئی ہے؟ ہم جہادی پیدا کرکے فخر محسوس کیوں کر رہے ہیں؟ ہم ہاسپیٹل مضبوط کرنے کے بجائے پرائیویٹ مافیا کو مضبوط کیوں کر رہے ہیں؟کیوں ہم فرقہ واریت کو مضبوط کر رہے ہیں؟ لہٰذاترقی کا پہلا زینہ یہی ہے کہ ہم نئے سال کے آغاز میں عہد کریں کہ شخصیات پرستی کو چھوڑ کر اداروں کو مضبوط کرنے میں اپنی توانائیاں صرف کرنی چاہیئں ، ورنہ اس سال کی طرح ہر سال کے خاتمے پر ہم اپنے مستقبل کے لیے فکر مند رہیں گے اور یہ فکرمندی ہمارے ساتھ ہی جڑی رہے گی! #Pakistan #Talkhiyan #Ali Ahmed Dhillon