پنجاب فوڈ اتھارٹی نیب کی راہ پر گامزن ؟

ہمارے ایک دوست بڑے دکھ سے کہا کرتے ہیں کہ ہم لوگوں کو دولت، طاقت، عزت اور شہرت ہضم نہیں ہوتی۔ کچھ کو ہیضہ ہو جاتا ہے کچھ کو پیچش پکڑ لیتی ہے یعنی اپنے اپنے انداز میں غلاظت اگلنے لگتے ہیں، اس سوہنی دھرتی کا کوئی ایک ”چراغ“ بتائیں جو آتشِ نمرود کا باعث نہ بنا ہو ، انتہا تو یہ کہ ہمیں کوئی ایسا پرندہ بھی نصیب نہ ہوا جو اپنی چونچ میں پانی بھر بھر لاتا اور آگ بجھانے کی کوشش کرتا۔اشرافیہ سے لے کر عوام تک کون سا ”چراغ“ تھا جس سے اس گھر کو آگ نہ لگی۔ جس کی چونچ تھی اس نے چونچ سے اس ملک کو نوچا، جس کا جبڑا تھا اس نے جبڑے سے اس ملک کے پڑچھے اتارے اور پرخچے اڑائے۔ الغرض یہاںاگر کسی ادارے یا شخصیت نے بھی اچھا کام کرنے کی ٹھانی اُسے سائیڈ لائن کردیا گیا اور پھر وہاںاشرافیہ اور مافیا نے اپنے پاﺅں جما لیے کہ ادارے کا بیڑہ غرق ہوگیا کہ وہ دوبارہ اُٹھ نہ سکا۔ آپ پنجاب فوڈ اتھارٹی کی ہی مثال لے لیں، اس ادارے کو شہرت اُس وقت ملی جب 2014-15ءمیں ڈائریکٹر آپریشن فوڈ اتھارٹی عائشہ ممتاز نے بلا خوف و خطر پورے پنجاب کے 7000سے زائد ریسٹورنٹ اور پروڈکشن ہاﺅسز پر چھاپے مارے۔ ایک خاتون افسر نے لاہور میں کھانے پینے کی جگہوں پر سرِ عام چھاپے مار کر ان میں جاری سرگرمیوں کو بے نقاب کرنے کا مشکل کام اکیلے شروع کیا۔صورت حال کا صرف جائزہ ہی نہیںلیتی تھیں، تصایر بھی لی جاتی تھیں جو ثبوت کے طور پر ادارے کے فیس بک صفحے پر پوسٹ کر دی جاتی تھیں۔ ریستورانوں اور خوراک کی دکانوں پر لی گئی تصاویر صارفین کو حیران و پریشان کر دیتی تھیں کہ انھیں کھانے کے نام پر کیا کھلایا جاتا تھا۔اورپھر سب نے دیکھا کہ راتوں رات ڈائریکٹر آپریشنز عائشہ ممتاز روایتی اور سوشل میڈیا میں اس مہم کا چہرہ بن گئیں ۔یعنی عائشہ ممتاز سے لوگ اس لیے خوش تھے کہ وہ بلا تفریق ہر جگہ چھاپے مارتی تھیں، ایسا نہیں کرتی تھی کہ فلاں ریسٹورنٹ کے مالکان کی ”لڑی“ فلاں سیاستدان کی طرف جاتی ہے اس لیے اُسے نشانہ نہ بنایا جائے وغیرہ۔ لیکن جلد ہی عائشہ ممتاز کو کھڈے لائن لگا دیا گیا اور پھر یہ ادارہ بھی ”روایتی سرگرمیوں“ میں ملوث ہوگئے۔ روایتی سرگرمیوں سے مراد کہ جس طرح نیب کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ من پسند لوگوں کو ایک طرف رکھ کر گنے چنے لوگوں کے خلاف کارروائی کرتا ہے، اس پر ہمیشہ الزام لگتا ہے کہ وہ بلاتفریق کارروائی کرنے کے بجائے چند ایک مخالفین کے خلاف کارروائی کرتا ہے تبھی ہمارادنیا بھر میں کرپشن میں 130واں نمبر ہے۔ پھر آپ ہمارے نظام انصاف کو دیکھ لیں، ہماری عدالتوں میں 25لاکھ مقدمات زیر التوا ہیں لیکن مجال ہے کہ ان مقدمات کی باری آجائے جبکہ عدالتیں طاقتور افراد کے کیسز کو ترجیحی بنیادوں پر سنتی اور پرکھتی ہیں۔ جبکہ کمزور طبقے کے کیسز کئی کئی سال سے زیرالتوا رہتے ہیں ۔ تبھی ہماری عدالتوں کی کارکردگی دنیا بھر میں 145ویں نمبر پر ہے۔ یعنی بقول شاعر یہاں اپنے ہی لوگ ادارے تباہ کرنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ دل کے پھپھولے جل اُٹھے سینے کے داغ سے اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے خیر بات پنجاب فوڈ اتھارٹی کی ہو رہی تھی کہ کس طرح ایک ادارے نے شہرت حاصل کی اور پھر اُس میں یک طرفہ کارروائی کا پہلو نمایا ں ہوا اور آج حالات یہ ہیں کہ لاہور میں 90فیصد سے زائد اشیاءغیر معیاری اور ملاوٹ شدہ مل رہی ہیں۔ حتیٰ کہ بچوں کے استعمال کی اشیاءجن میں دودھ یا دہی نمایاں ہیں بھی ملاوٹ شدہ اور مہنگے داموں دستیاب ہیں، اور تو یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ لاہور میں جو سبزیاں فروخت کی جا رہی ہیں وہ فیکٹریوں کے زہریلے پانی کے استعمال سے تیار ہورہی ہیں جن کی وجہ سے شہری گردے اور جگر کے امراض کا شکار ہو رہے ہیں۔ اور پھر ادارہ یہ سب چیزیں چھوڑ کر ایسی چیزوں کے پیچھے پڑ گیا ہے جس سے کسی نہ کسی طرح سازش کی بو آرہی ہے۔ جیسے مثال کے طور پر یہ خبر ہم سب کی نظروں سے گزری کہ ”لاہور میں مشہور سٹورز کی چین ”الفتح“ کے گودام میں پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل سمیت عملے کے دیگر اراکین کو 6گھنٹے تک یرغمال بنائے رکھا، جنہیں پولیس نے بازیاب کروایا۔ “ یہ خبر واقعی چونکا دینے والی تھی کہ اتنا بڑا ادارہ کیسے یہ ”چھوٹی “ سی حرکت کر سکتا ہے۔ کوشش کرکے پتہ چلایا گیا تو علم ہوا کہ کےٹیم وہاں اپنی مرضی سے 1گھنٹے سے بھی کم عرصے کے لیے موجود رہی، جس کی فوٹیج بھی موجود ہیں۔اور اس غیر یقینی ”یرغمالی“ کا پی ایف اے کی جانب سے کہیں مقدمہ بھی درج نہیں کروایا گیا۔ کیوں کہ شاید وہ جانتے تھے کہ شفاف انوسٹی گیشن میں تمام ثبوت عوام کے سامنے آجائیں گے۔ اور پھر اس الزام کا پورے میڈیا میں ڈھنڈورا پیٹا گیا، حالانکہ یہ بات عدالت عظمیٰ اپنے ایک فیصلے میں کہہ چکی ہے کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ایکٹ کی شق (38) یہ بات واضح کرتی ہے کہ فوڈ اتھارٹی اس وقت تک کسی فوڈ کے کاروبار یا اس کے چلانے والے شخض کا نام اس وقت تک شائع نہیں کر سکتی جب تک اس کے خلاف کیا گیا فیصلہ حتمی حیثیت اختیار نہ کر لے۔ لیکن اس کے برعکس یہاں اُس ادارے کا میڈیا ٹرائل کیا گیا۔ خیر دوسری بات یہ کہ جن پراڈکٹس کو لے کر ادارے کی ساکھ کو متاثر کیا گیا ہے وہ تو سرے سے ہی غلط ہے۔ اور اگر پراڈکٹ غلط ہے تو اُسے پاکستان کی دو لاکھ سے زائد دکانوں پر رکھنے کی اجازت کس نے دی۔ اور سب سے اہم بات کہ جن پراڈکٹس کو غیر معیاری قرار دیا جا رہا ہے وہ دنیا کے 32لاکھ آﺅٹ لیٹس پر کیوں دستیاب ہیں؟ اور پھر اس سے بھی زیادہ شک والی بات یہ کہ مذکورہ پراڈکٹس تو پاکستان کے ہر بڑے سٹور پر دستیاب ہیں تو پھر امپورٹر کو پکڑنے کے بجائے کسی مخصوص سٹور پر ہی کیوں چھاپہ مارا گیا؟ اور پھر شک مزید اس لیے بھی بڑھ جاتا ہے کہ ڈپٹی ڈائریکٹر کی سطح کا کام ڈائریکٹر جنرل لیول کا بندہ خود جا کر سرانجام دے رہا ہو۔اور پھر جب یہ ساری کڑیاں ملائی گئیں تو پتہ چلا کہ مذکورہ سٹورز کے چیئرمین اس سال چیمبر آف کامرس کا الیکشن لڑ رہے ہیں جو رواں ماہ دسمبر کی30تاریخ کو ہونا ہے،پر اثر انداز ہونے کے لیے شاید پنجاب فوڈ اتھارٹی کو استعمال کیا گیا ہے۔ لہٰذابادی النظر میں لگ تو یہی رہا ہے کہ اس کام میں پنجاب فوڈ اتھارٹی مخالف پارٹی کے ہاتھوں استعمال ہوچکی ہے ۔اور لگ رہا ہے کہ ہر کوئی اپنے آپ میں ”نیب“ بنا ہو اہے!جو بجائے سسٹم کو ٹھیک کرنے کے اپنی مرضیاں مسلط کر کے وطن عزیز کا بیڑہ غرق کر رہا ہے۔ اور رہی پاکستان کی بات تو وطن عزیز کی پوزیشن اس وقت ایک ناکے جیسی ہے جیسے ناکے پر کھڑے چند پولیس اہلکار گپیں مار رہے ہیں اور لوگ گزر رہے ہیں، اور پھر جب پولیس والوں بھوک لگتی ہے تو یہ اپنے شکار کی طرف دوڑتے ہیںاورپھر جس مرضی کو روک کر پیسے بٹورتے ہیں۔ اور پھر ان ناکے والوں کا زیادہ زور موٹرسائیکل والوں(کمزور طبقات) پر ہوتا ہے، کیوں کہ وہ گاڑی والوں(طاقتورطبقات) سے شاید ڈرتے ہیں ۔ لہٰذایہاں یہ کہنا مناسب ہو گا کہ پاکستان میں ہر چیز کسی خاص مقصد کے لیے کی جاتی ہے، سسٹم کو سپورٹ کرنے کے لیے نہیں کی جاتی ۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے سب جانتے ہیں کہ لاہور میں کم و بیش ہر بڑے ریسٹورنٹ میں غیر قانونی طور پر مختلف انٹرنیشنل برانڈز کی وائن ہوتی ہے مگر گزشتہ سال لاہور کے گلبرگ میں ایک مخصوص کیفے پر ایکسائز ٹیکسیشن آفیسرز نے چھاپہ مار کر 13افراد کو حراست میں لیا اور سینکڑوں شراب کی بوتلیں برآمد کیں۔ بعد میں تحقیقات ہوئیں تو پتہ چلا کہ مذکورہ آفیسر نے کمشنر لاہور کے کہنے پر چھاپہ مارا تھا جن کا ہوٹل مالکان کے ساتھ کوئی مسئلہ بتایا جا رہا تھا۔ الغرض پاکستان میں پرابلم یہ ہے کہ یہاں ہر چیز مفادات کے لیے استعمال کی جاتی ہے، سسٹم کو ٹھیک کرنے کے لیے کوئی کام نہیں کرتا۔ لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح ابھی تک موٹروے پولیس نے اپنی ساکھ کو بچا کر رکھا ہے ، اور کہا جاتا ہے کہ یہ ملک کا واحد ادارہ ہے جس میں رشوت ستانی کے امکانا ت 80فیصد کم ہیں۔ اسی طرح پنجاب فوڈ اتھارٹی کو بھی اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کی ضرورت ہے ۔ تاکہ عوام کو خالص اشیاءمل سکیں۔ یقین مانیں اس وقت پنجاب بھر میں بچوں کے کھانے والی اشیاءاس قدر ناقص ہیں کہ شاید دنیا بھر کے ممالک میں اتنی لاپرواہی نہ برتی جاتی ہو۔ اس لیے اپنی ساکھ کو بحال کرنے کے لیے پنجاب فوڈ اتھارٹی کو چاہیے کہ ناقص میٹریل استعمال کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرے، غیر رجسٹرڈ فوڈ کمپنیوں کو بند کروائے۔ عوام کو غذائی اشیاءبیچنے والے ہر ہوٹل کے باہر فوڈ اتھارٹی کا شکایا ت بکس ہونا چاہئے تاکہ شہری اپنی شکایات آسان طریقے سے پہنچا سکیں۔ شکایات کا اندراج کرنے کیلئے آن لائن طریقہ کار یا ہیلپ لائن کا اجراءبھی کیا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فوڈ اتھارٹی مختلف ہوٹلز کی کیٹیگریز بنا کر اور ہوٹل مالکان کی مشاورت سے پرائس کمیٹیاں بنا کر مختلف اشیاءکی قیمتوں کا تعین کرے تو زیادہ بہتر ہو گا۔اور جس غیر ملکی چیز سے وہ مطمئن نہ ہوں اُسے درآمد نہ کرنے کے لیے حکومت کو خط لکھے اور اسے روکے وغیرہ۔ مطلب جو اُس کے کرنے کے کام ہیں وہ کرے۔ اور بالکل بھی نیب کے پیچھے نہ چلے کہ جس نے گزشتہ 4سالوں میں بے شمار سیاستدانوں کو گرفتار کرکے کئی کئی ماہ اندر رکھا مگر ریکوری کا نتیجہ ” صفر بٹا صفر“ رہا! #Al Fatah Store 2 #Ali Ahmed Dhillon Talkhiyan