کیا وزیر اعظم عمران خان بنی گالا ”چیرٹی “ میں دے سکتے ہیں؟

امریکا کی ایک بہت اچھی ”رسم“ ہے کہ جب وہاں کا صدر اپنی مدت صدارت پوری کرتا ہے تو ملک بھر میں کسی ایک جگہ کا انتخاب کرتا ہے جہاں وہ صدارتی لائبریری یا میوزیم بناتا ہے، عمومی طور پر سابق صدور اپنے آبائی شہر میں اس طرح کی لائبریریاں قائم کرتے ہیں۔جیسے سابق امریکی صدر باراک اوباما نے شکاگو شہر کے جنوب میں اپنی لائبریری ، میوزیم، بچوں کے لیے کھیلنے کی جگہ اور ایک اتھلیٹ کا میدان بنایا، پھر سابق امریکی صدر رونالڈ ریگن نے اپنی لائبریری کیلی فورنیا کے شہر سِمی ویلی میں بنائی، بل کلنٹن نے یہ یادگاری عمارت ریاست آرکنساس کے دارالحکومت لٹل راک میں قائم کی جبکہ جارج ڈبلیو بش نے اپنے دور اقتدار کی یادوں کو ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلاس میں عام کیا۔یہ روایت 1933ءتا 1945ءمیں صدر کے عہدے پر براجمان رہنے والے ڈیموکریٹ سیاستدان فرنکلین روزویلٹ نے قائم کی۔ ان کی لائبریری میں ان کے دور اقتدار کے انتہائی اہم اور نادر دستاویزات رکھے گئے تھے۔ عام عوام بالخصوص تاریخ دان، سیاسیات سے شغف رکھنے والے افراد اور سیاح ایسی لائبرئریوں میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ امریکی صدور کی ان لائبریریوں اور میوزیمز میں جا کر ان کے دور اقتدار کے بارے میں متعدد پہلو اجاگر ہوتے ہیں اور عوام سمجھ سکتے ہیں کہ انہوں نے بطور صدر کیا کیا فیصلے کیے اور ان کے کیا اثرات نکلے۔ یہ صدر کی آخری مہم ہوتی ہے، جس دوران وہ کوشش کر سکتا ہے کہ اسے تاریخ میں کس قدر بہتر مقام حاصل ہو سکتا ہے۔ امریکی صدور لائبریری کے قیام سے تاریخ میں اپنا نام تعلیم اور علم سے زندہ رکھنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اور عہدہ صدارت ختم ہونے کے بعد عام آدمی کی طرح زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اُن کے ایسا کرنے سے عوام میں ایک خوشگوار احساس پیدا ہوتا ہے، تبھی وہ اپنے لیڈروں سے ناصرف محبت کرتے ہیں بلکہ بسا اوقات اُن کی پیروی بھی کرتے ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس یہاں پاکستان میں تو اندھیر مچا ہوا ہے۔ یہاں جو ایک مرتبہ سیاستدان بن جاتا ہے ،یا اُسے اقتدار مل جاتا ہے تو اُس کی اگلی سات نسلیں سنور جاتی ہیں۔ وہ عام عوام کی کیٹیگری سے نکل کر ایلیٹ کلاس بن جاتا ہے اورعوام یا تو اُس کا منہ تکتی رہ جاتی ہے یااُس کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ اور سسٹم کا سُن لیں، سسٹم بھی ان حضرات سے پوچھنے سے قاصر رہتا ہے کہ بھئی! آپ نے یہ سب کیسے بنا لیا؟ حالانکہ اسلام میں کئی ایک ایسی مثالیں ہیں جن کی رو سے یہ ثابت ہے کہ اگر آپ کی آمدنی سے زیادہ اثاثے ہیں تو اُس پر آپ سے پوچھ گچھ ہو سکتی ہے۔ جیسے حضرت عمر فاروقؓ کے دور حکومت ہی میں حضرت عمرو بن العاص گورنر مصر تھے۔ ایک بار خلیفہ دوم نے اپنے گورنر کو خط میں لکھا ”مجھے خبر ملی ہے کہ تم گھوڑوں، گائے اور غلاموں کے مالک بن چکے۔ میں جانتا ہوں کہ گورنری سے قبل تمہارے پاس یہ چیزیں نہیں تھیں۔ سچ سچ لکھو کہ یہ چیزیں تمہارے پاس کیسے اور کہاں سے آئیں؟“ لیکن یہاں ایک وزیر اعظم گھر چلا گیا مگر اُس نے سپریم کورٹ کے بار بار کہنے کے باوجود سوئس حکومت کو خط نہ لکھا کہ ”باس“ کے اکاﺅنٹ میں جو پیسہ پڑا ہوا ہے وہ کتنا ہے اور کب کب آیا۔ اسی لیے یہاں ہر کوئی دوسرے کو تحفظ دیتا رہا تبھی جو جو سیاستدان و اقتدار کا والی بنتا گیا اُس کے دنیا بھر نہ صرف کاروبار سیٹ ہوئے بلکہ دنیا بھر میں جائیدادوں کا ایک نیٹ ورک بھی بچھ گیا ۔ یعنی آپ صرف سیاستدانوں کے اُن ایسٹ پر بھی نظر ڈال کر دیکھ لیں جو انہوں نے الیکشن کمیشن میں جمع کروا رکھے ہیں، ( یہ اُن کی اصل دولت کا دس فیصد بھی نہیں ہے) لیکن آپ اندازہ لگائیں کہ یہ کیسے امیر ہوگئے؟آپ سابقہ اقتدار میں رہنے والے خاندانوں کو دیکھ لیں ایک خاندان پاکستان کا دوسرا امیر ترین خاندان بن گیا جبکہ دوسرا خاندان تیسرا بڑا امیر ترین بن گیا۔ اور اگر آپ ریکارڈ کی بات کریں تو الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق وطن عزیز کے امیر ترین سیاستدان چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری ہیں، انہوں نے کاغذات نامزدگی میں ایک ارب 54 کروڑ 48 لاکھ روپے سے زائد مالیت کے اثاثوں کے مالک ہیں۔ انہوں نے دستاویزات میں پاکستان اور بیرون ملک 23 جائیدادوں کی ملکیت ظاہر کی ہے جب کہ لندن اور دبئی میں بھی جائیداد کی ملکیت تسلیم کی حالانکہ بحریہ ٹاون لاہور میں جو محل ہے وہ اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا گیا جبکہ آصف زرداری اپنے بیٹے سے کم امیر ہیں وہ صرف 75 کروڑ 86 لاکھ 69 ہزار 73 روپے کے مالک ہیں اور 349 ایکٹر سے زائد زرعی زمین رکھتے ہیں، 7399 ایکڑزرعی زمین ٹھیکے پر لے رکھی ہے۔ اور پھر سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کہا کرتی تھیں کہ میری پاکستان کے باہر تو کیا پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں اور وہ ہی 1506 کنال ایک مرلہ زرعی زمین کی مالک نکلی جس میں گزشتہ 3 برسوں کے دوران 548 کنال کا اضافہ ہوا اور مختلف کمپنیوں میں ان کے شیئرز بھی ہیں 3 برسوں کے دوران 64 لاکھ روپے سے غیر ملکی دورے بھی کیے اور انکو 4 کروڑ 92 لاکھ کے تحائف ملے اور وہ ساڑھے 17 لاکھ کے زیورات کی بھی مالکہ ہیں۔جبکہ پی ٹی آی کے چیئرمین عمران خان نے اپنی کاغذات نامزدگی میں ظاہر کیا ہے کہ 168 ایکڑ زرعی زمین کے وہ مالک ہیں عمران خان نے اپنے گزشتہ برس کے اثاثے 47 لاکھ 76 ہزار 611 روپے ہے، تنخواہ 18 لاکھ 991 روپے اور زرعی آمدن 23 لاکھ 60 ہزار روپے ہے زیر استعمال فرنیچر اور دیگر سامان کی مالیت 5 لاکھ اور ان کے پاس موجود جانوروں کی مالیت 2 لاکھ روپے ہے عمران خان کی لاہور اور اسلام آباد سمیت پاکستان میں 14 جائدادیں ہیں جو انہیں ورثے میں ملی ہیں اسی طرح جہانگیر ترین نے اپنے بچوں کو دوارب دس کروڑ کے گفٹس دیئے۔جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے پاس بھی چند ایک جائیدادیں ہیں اور معمولی رقوم ہیں۔ جبکہ ان تمام سیاستدانوں کے اثاثے اس سے کہیں ذیادہ ہیں یہ تو وہ ہی بات ہوگئی ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور مگر پھر بھی ایک غریب آدمی یہ سوچتا ہے اتنا پیسہ ہونے کے باوجود یہ لوگ کیوں حکمرانی کیلئے اس قدر اتاولے ہوئے جارہے ہیں اور حلف ناموں تک میں جھوٹ لکھ رہے ہیں اپنی جائیدادوں اور فرنیچرز کی قیمت متوسط گھرانوں سے بھی کم بتا رہے ہیں۔ الغرض آپ ہمارے حکمرانوں کی صرف رہائش ہی دیکھ لیں، یا اُن کا پروٹوکول ہی دیکھ لیں، یا اُن کے کیمپ آفسز ہی دیکھ لیں، یا اُن کی جاگیریں ہی دیکھ لیں ،،، دھنگ رہ جائیں گے،،اور پھر ان چیزوں کو دیکھ کر ہماری قوم کا مورال ویسے ہی گر جاتا ہے، وہ احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں، آپ اگر وزیر اعظم عمران خان صاحب کی بات کریں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ بنی گالہ سپریم کورٹ نے بنی گالہ کو کلیئر قرار دیا ہوا ہے ، تو کیا وہ قوم کے درد کو سمجھتے ہوئے کسی چھوٹی جگہ پر رہائش پذیر نہیں ہو سکتے۔ حالانکہ وہ ساری زندگی لندن کے فلیٹس میں رہائش پذیر رہے، زمان پارک میں بھی وہ نسبتاََ چھوٹے گھر میں رہے، تو یہاں کیوں نہیں ؟ اگر انہیں انقلابی بننا ہے تو یہ قربانیاں دینا ہوں گی، اُس کا فائدہ یہ ہو گا کہ ملک میں ایک نئی روایت قائم ہوگی اور عوام کی Feelingsکا لیول ہی اور ہوگا۔ حالانکہ آپ بار بار ریاست مدینہ کی مثال دیتے ہیں، تو حضرت ابو بکر صدیق ؓکا طرز زندگی ہم سب کے سامنے ہے، کہ وہ مدینہ منورہ میں کپڑے کا کاروبار کرتے تھے جو خلافت کی ذمے داری اٹھانے کے بعد بند کرنا پڑا کیونکہ تجارت اور عوام کے مسائل ایک ساتھ نہیں چل سکتے تھے۔فرمایا کہ جب حاکم وقت اور خلیفہ کی دکان موجود ہو گی تو کوئی گاہک کسی دوسری دکان پر کیسے جائے گا پھر یہ بھی کہ عوام اور ریاست کے مسائل اتنے ہوا کرتے ہیں کہ ان کے لیے وقت کیسے نکل سکتا ہے۔ تجارت دکانداری اور کاروبار مملکت ایک ساتھ نہیں چل سکتے چنانچہ خلیفہ اول نے مجبور ہو کر اپنی دکان بند کر دی، اب سوال یہ پیدا ہوا کہ دکاندار کی ضروریات کہاں سے پوری ہوں ان کے گھر بار کی ذمے داری کون اٹھائے یعنی ان کی آمدنی کا ذریعہ کیا ہو۔انہوں نے فرمایا کہ آپ لوگ میری تنخواہ مدینہ کے ایک مزدور کے برابر مقرر کر دیں کیونکہ اس اجلاس کی پہلی آئٹم خلیفہ کی تنخواہ تھی اس پر ساتھیوں نے عرض کہ جناب مزدور کی تنخواہ تو بہت کم ہوتی ہے اس پر آپؓ کا گزارہ نہیں ہو گا تب اسلامی تاریخ کے اس سب سے پہلے اور بڑے حکمران نے آنے والے حکمرانوں کے لیے یہ تاریخی جملہ کہا اور ایک اسلامی حکومت کے بجٹ کا فیصلہ بھی کر دیا کہ پھر مزدور کی تنخواہ بڑھا دی جائے اس طرح میری تنخواہ بھی خود بخود بڑھ جائے گی اور میری ضرورت پوری ہوتی رہے گی۔الغرض ہمارے حکمران عوام کے لیے ایک مثال نہیں بن سکتے؟ آج ہی اگر عمران خان خود سادہ طرز زندگی اپنا لے تو آج قوم اُن کے پیچھے کھڑی ہوجائے۔ کیا یہ اقتدار اُنہیں بار بار ملنا ہے؟ اگر ایک ہی بار ملنا ہے تو اُسے امریکی صدور کی طرح یادگار کیوں نہیں بنا دیتے ؟ آج جرمنی میں انجیلا مرکل نے 15سال بعد اقتدار چھوڑا ہے، وہ آج بھی اُسی گھر میں رہتی ہیں، جہاں اقتدار ملنے سے پہلے رہتی تھیں، اُنہیں اس دوران ”یورپ کی ملکہ“ کا خطاب ملا۔اُنہوں نے جب اقتدار چھوڑا تو دنیا میں کہیں کوئی فلیٹ ، محل یا جزیرہ نہیں خریدا۔ لہٰذاہمارے حکمران بھی عوام کا مورال بلند کرنے کے لیے اقدامات کریں۔ اس کے لیے زیادہ محنت کی بھی ضرورت نہیں بس کفایت شعاری کو خود سے شروع کریںاور پھر 100فیصد نتائج دیکھیں۔گارنٹی کے ساتھ ! #Pakistan #Hukmaran residensia #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan