وکیل گردی آخر کب تک !

ہر بار میرا دل نہیں مانتا کہ یہ کام کالے کوٹ پہننے والے کرسکتے ہیں، لیکن ہر بار یہ بھی حقیقت ہوتی ہے کہ یہ کام کالے کوٹ پہننے والے ہی کررہے ہیں، تمام سی سی ٹی وی فوٹیجز خود اپنا بیاں ہوتی ہیں۔ یہ بھی صحیح کہ ان کو اکسایاجاتا ہے ، لیکن یہ بھی غلط نہیں کہ ان میں برداشت کا مادہ نہ ہونے کے برابر رہ گیاہے۔یہ بھی صحیح ہے کہ یہاں ہر جگہ دو دو چار سو لوگوں کے جتھے بن گئے ہیںجو اپنی بات منوانے کے لیے حکومتی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں مگر یہ بھی درست ہے کہ کالا کوٹ پہننے والوں سے یہ اُمید نہیں رکھی جا سکتی۔ جی ہاں! اُمید کے عین مطابق وکلاءگردی کا ایک اور واقعہ آج ہمارے سامنے ہے، منڈی بہاوالدین کے سیشن جج کو وکلاءبرادری نے ”کُٹ“ لگا کر اپنے ہی بینچ اور بار کی عزت کی دھجیاں اُڑائی ہیں۔ ہوا کچھ یوں کہ گزشتہ ہفتے صارف عدالت کے جج راو¿عبدالجبار کی عدالت میں ایک شہری محمد عاصم حسین نے درخواست دائر کی کہ واپڈا کالونی سرکاری کوارٹر کی الاٹمنٹ ضلعی انتظامیہ نے ایک سرکاری ٹیچر حسن علی کے نام کردی ہے۔ انتظامیہ نے محمد عاصم سے زبردستی سرکاری مکان خالی کروا لیا جو کہ غیر آئینی اور غیر قانونی عمل تھا۔درخواست گزار نے صارف عدالت کو بتایا تھا کہ متعدد بار ڈی سی اور اے سی کو نوٹس بھیجوائے گئے مگر عدالت کے حکم کی تعمیل نہ کی گئی اورانھوں نے اپنی جگہ پر کلرک رانا محبوب کوعدالت بھیجوا دیا۔ ڈی سی کے کلرک نے عدالت کے ساتھ بدتمیزی کی اور عدالت کے اختیارات کو چیلنج کیا۔ بعد ازاں ڈی سی منڈی بہاو¿الدین طارق بسرا نے جج راو¿ عبدالجبار کو ٹیلی فون کیا اور کہا کہ میرے کلرک کو چھوڑ دیں اور اسے جانے دیں جس پر عدالت نے ایک دن کی مہلت دیتے ہوئے ڈی سی منڈی بہاو¿الدین طارق علی بسرا اور اے سی امتیاز بیگ کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا اور جواب طلبی کی۔دونوں افسران عدالت کو مطمئن نہ کرسکے جس پر عدالت نے دونوں افسران کے ہتک آمیز رویہ پر تین تین ماہ کی سزا سنا کر جیل بھیجوانے کا حکم جاری کیا تھا اور پولیس نے ان افسران کو گرفتار کرکے جوڈیشنل ریمانڈ پر جیل بھیجوادیا تھا۔لیکن بعد ازاں بعض اس فیصلے پر متعدد وکلاءنے کنزیومر کورٹ ہی میں جج راﺅ عبدالجبار کو مبینہ طور پر بدترین تشدد کا نشانہ بناڈالا ،تشدد کرنے والے وکلاءکی جانب سے پہلے جج پر دباﺅ ڈالا گیا پھر اُنہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔مقدمے کے مطابق جج کے انکار پر ملزمان نے تشدد شروع کردیا اور عدالت کو کنڈیاں لگا دیں۔ اب اس واقعہ کوایک طرف رکھیں ! پھر ایک لمحہ کے لیے سوچیں کہ کیا یہ فعل کسی بھی اسلامی مملکت کے قانون دانوں کو زیب دیتا ہے؟ یقینا نہیں دیتا لیکن اس سے زیادہ شرمندگی اُس وقت ہوتی ہے جب یہ اُلٹی سیدھی دلیلیں دے کر اپنے کیے پر شرمند ہونے کے بجائے اُس کا دفاع کرتے ہیں۔ اور میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس طرح کے واقعات 2009ءکے بعد ہی بڑھے ہیں۔ یعنی2009ءکی سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے لیے چلائی جانے والی وکلاءتحریک کے بعد ۔ کیوں کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک کے بعد ہی ”وکلا گردی“ کی اصطلاح سامنے لائی گئی۔ جب جونیئر وکیلوں کی ایک بڑی تعداد نے اپنے حق میں فیصلہ نہ ہونے پر ایک جتھہ کی صورت میں عدالتوں پر حملہ کیا، ججوں پر حملہ کیا حتیٰ کہ عدالت میں پیش ہونے والے پولیس اہلکاروں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا۔ آپ ان دس بارہ سالوں میں وکلاءگردی کا اندازہ یہاں سے لگا سکتے ہیں کہ پنجاب میں گزشتہ دس سالوں کے دوران تشدد کرنے پر2880وکلا کے خلاف251 مقدمات درج ہوئے ہیں۔قانون کے رکھوالوں نے 2009 سے 2021 تک پولیس، عدالتی عملے اورسول ایڈمنسٹریشن کے درجنوں افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا۔وکلا نے 12 سال کے دوران سب سے زیادہ پولیس کو تشدد کا نشانہ بنایا جس کے150 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ پولیس پر تشدد کرنے کے مقدمات میں مجموعی طور پر1750 وکلا نامزد ہیں۔سول ایڈمنسٹریشن کے افسران پر تشدد کے 51 مقدمات میں 740 وکلا کو نامزد کیا گیا۔ ججز اورعدالتی عملے پر تشدد اور بدتمیزی پروکلا کے خلاف50 مقدمات درج کیے گئے۔صرف پنجاب بھر میں عدالتی عملے پر تشدد کرنے کے الزام میں 490 وکلا کے خلاف کیسز رجسٹرڈ کیے گئے ہیں۔الغرض حالات کی سنگینی کا اندازہ یہاں سے لگائیں کہ اب ججز ان وکلاءکے ڈر سے قانون کے مطابق کوئی فیصلہ بھی نہیں کر سکتے۔ یہ صرف اور صرف پاکستان کے کرتا دھرتاﺅں کی بدولت ہی ہو رہا ہے ، کیوں کہ پاکستان کی تاریخ میں جس جس نے بھی ”نظریہ ضرورت“ کے تحت جن بوتل سے نکالا، اُسے واپس ڈالنے کی زحمت نہیںکی۔ میں پھر یہی کہوں گا کہ یہ سابق چیف جسٹس کی مہربانی ہے کہ اُنہوں نے وکلاءکا جن بوتل سے نکالا اور آج 12سال ہونے کے باوجود اندر نہ ڈالا جا سکا۔ اس میں اعتزاز احسن، علی احمد کرد اور دیگر وکلاءبھی اتنے ہی ذمہ دار ہیں جتنے سابق چیف جسٹس۔ یہ لوگ اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔اور پھر یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے افغان جنگ میں امریکا نے مجاہدین بنوائے، اور بعد میں اُن کا حل نکالے بغیر واپس چلا گیا۔ اسی طرح ہم نے فرقہ بازیوں کے مختلف جن بوتل سے نکالے، مگر بغیر اُنہیں واپس اندر ڈالے ۔ پھر مولویوں کا جن بوتل سے نکالا گیا جس نے جب چاہا حکومتی رٹ کو چیلنج اورملک بند کردیا۔ ان جنوں کو نکالنے والوں کو کوئی نہیں پوچھتا، کہ اُنہوں نے اسے کیوں نکالا۔ نہ کوئی افتخار چوہدری کو کوئی پوچھ سکتا ہے نہ کسی اور سے کچھ پوچھا جا سکتا ہے۔میرے خیال میں اس میں سب سے زیادہ قصور اُن کا ہے جو حکمرانوں کو بناتے ہیں، یہ اُن کی غلط پالیسیاں ہیں،کیا یہ کوئی پوچھ سکتا ہے؟ یا کوئی انوسٹی گیٹ کروا سکتا ہے ؟ کہ افتخار چوہدری صاحب کی ساری تحریک کو فنڈنگ کون کر رہا تھا ؟خیر یہ ایک الگ بحث ہے لیکن افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ یہاں اداروں کو اجاڑنے والے سبھی ہیں مگر اُسے سمیٹنے والا کوئی نہیں! پھر ان کی بدمعاشیاں صرف حکومت کے خلاف ہی نہیں بلکہ ہر کیس میں اس کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے۔ نہ جانے ان میں سے کچھ لوگوں نے عدالتوں کو کیا سمجھ رکھا ہے۔ عدالتوں سے کھیلتے ہیں اور قانون کے دائرے میں رہ کر کھیلتے ہیں۔ عدالت کو معلوم ہوتا ہے سامنے کھڑا شخص آنکھ میں دھول جھونک رہا ہے لیکن تاریخ دینے کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا۔الغرض اندھیر مچاہے ، حکمران جوتیوں سمیت آنکھوں میں اتر جا تے ہیں، پیٹنے والے پیٹتے رہ جاتے ہیں۔ چند دن پہلے علی احمد کرد نے ایک جوشیلا خطاب کرتے ہوئے اشارہ کیا کہ عدالتوں میں جلدی انصاف نہیں ملتا اور کیس سالوں چلتا رہتا ہے۔ لیکن کیا علی احمد کرد کو اپنی برادری سے بھی نہیں پوچھنا چاہیے کہ انہوں نے تاریخ پہ تاریخ حاصل کر کے کیس کو لٹکانے میں مہارت کو ہی اپنا تعارف کیوں بنا لیا ہے۔ اب تو باقاعدہ کسی وکیل کے پروفائل میں تعریف کے طور پر شامل کیا جاتا ہے کہ موصوف کیس کو لٹکانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ نظام کیسے ٹھیک ہو گا ، کون کرے گا؟ بہرکیف یہ پیشہ ایک مقدس پیشہ ہے، ایک وقت تھا جب وکلا جمہوری تحریک کا ہراول دستہ ہوا کرتے تھے اورغیر جمہوری حکومتوں اوران کی آمرانہ پالیسوں کی مزاحمت بار ایسویسی ایشنز کا طرہ امتیاز ہوا کرتا تھا لیکن جوں جوں ہماری ریاست کی جڑیں آمریت میں پیوست ہوتی چلی گئیں تو ریاست پر قابض غیر جمہوری اور غیر مقبول قیادت نے سماج میں موجود پریشر گروپس کی مددو تعاون حاصل کرنے کے لئے رشوت اورمراعات کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرناشروع کردیا۔ اسی لیے الغرض عدلیہ بحالی تحریک میں جس طرح وکلا کو استعمال کیا گیا تھا اس نے وکلا کو اختیارات کا غلط استعمال کرنے کا راستہ دکھایا۔ اور دکھایا کہ وہ ایک جتھہ بن کر کچھ بھی کروا سکتے ہیں۔ مثلاََمذکورہ بالا حالیہ واقعہ کو دیکھ لیجئے گا، کہ جن وکلاءنے سیشن جج کو مارا ہے، اُنہیں سزا ہی نہیں ہوگی۔ یہ آپ لکھ لیںیا اسے میرا چیلنج سمجھ لیں۔ حالانکہ اس کیس میں بھی دہشت گردی کا مقدمہ درج ہوا ہے ، لیکن میں دعوے سے کہتا ہوں کہ یہ مقدمہ اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکے گا، کبھی نہیں آج تک کی تاریخ تو اس کی تائید نہیں کرتی۔ آخر کار فریقین میں صلح صفائی ہی ہوئی ہے۔ مجھے پختہ یقین ہے اس واقعہ میں بھی فریقین کے مابین صلح ہوگی اور معاملہ ٹھپ ہوجائے گا۔ ایسا شاید اس لیے ہے کہ حکومت کی رٹ اس قدر کمزور ہو چکی ہے کہ وہ کسی بھی ڈسٹرکٹ باریا تحصیل بار کے صدر کو بھی سزا نہیں دے سکتی ۔ ان کی تمام تر رٹ غریب لوگوں پر چلتی ہے، غریب لوگوں کے مکان گرائے جاتے ہیں، غریب لوگوں کے ٹاور گرائے جاتے ہیں، غریب لوگوں پر بجلی، گیس اور پٹرول کے تازیانے برسائے جاتے ہیں۔ کیا کوئی جج اے سی ڈی سی کو سزا ہی نہیں دے سکتا۔ لیکن اس کے برعکس طاقتور لوگوں کے کیسز دنوں میں سنے جاتے ہیںغریبوں کے دس دس سال کیس لٹکادیے جاتے ہیں ۔ اب اس کیس پر بھی دیکھتے ہیں کہ بڑے ججز اپنے اس چھوٹے جج کو انصاف دلانے کے لیے کہاں تک جاتے ہیں، اور جس معاشرے میں سیشن جج خود کے لیے انصاف نہیں لے سکتا وہ دوسروں کو انصاف کیا فراہم کرے گا؟ لہٰذااس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے اور مخصوص جتھوں کو قابو کرنے کے لیے عدلیہ کو میرٹ پر کام کرنا ہوگا چہرے دیکھ کر انصاف بانٹنے کے طریقہ کار کو ترک کرنا ہوگا۔کیوں کہ اس سے سراسر نقصان وطن عزیز کا ہوتا ہے۔ قائداعظم خود وکیل تھے، اور اکثر کہا کرتے تھے کہ قانون کی حفاظت کرنا جتنی ایک وکیل کی ذمہ داری ہوتی ہے اُتنی کسی کی نہیں ہوسکتی! لہٰذاہمیں اپنی صفوں کو درست کرنا ہوگا اور خدا کے لیے جن بوتلوں سے نکالنے والوں سے التجا ہے کہ وہ جو جن نظریہ ضرورت کے تحت بوتل سے باہر نکالیں، اُسے اندر بھی ڈالیں تاکہ یہ ملک پھلتا پھولتا رہے، ناکہ ایسے واقعات کے سبب سکڑتا جائے! #Pakistan #Talkhiyan #Ali Ahmed Dhillon