یوم تاسیس : پیپلزپارٹی کو ”وراثتی سیاست “لے ڈوبی!

کسی سیاسی پارٹی کا جنم دن اُس کے کارکنوں کے لیے خاص اہمیت رکھتا ہے، خاص طور پراُس پارٹی کے ساتھ آپ کی دلی وابستگی ہو۔ جیسے پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ ہماری دلی وابستگی رہی۔ یہ پارٹی ہمارے ساتھ جوان ہوئی ، عروج دیکھا اور اب ”بڑھاپے“ کی جانب گامزن ہے۔ گزشتہ روز 30نومبر کو PPPکی 54ویں سالگرہ یعنی یوم تاسیس منایا گیا۔اس پارٹی کو کیسے عروج سے زوال آیا اور کیوں کر آیا اور چاروں صوبوں کی”زنجیر“ پیپلزپارٹی کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایک صوبے تک محدود کیوں کر دیا گیا اس پر تو بعد میں آتے ہیں پہلے اگر اس پارٹی کی تاریخ پر طائرانہ سی نظر ڈالتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کا قیام1967میں عمل میں آیا۔ 1966ءمیں جب ذوالفقار علی بھٹو سیاسی اختلافات کی بنا پر صدر ایوب خان کی کابینہ سے مستعفی ہوئے تبھی سے وہ ایک سیاسی جماعت کے قیام کے لیے کوشاں تھے۔ اسی زمانے میں لاہور میں کچھ دانشور، جن میں اخبار نویس، اساتذہ، وکلا، ادیب اور سرکاری ملازم شامل تھے، ایک ہفتہ وار ادبی اجلاس میں ملک کے مسائل پر بحث کرکے ان مسائل کے ممکنہ حل کے بارے میں گفتگو کیا کرتے تھے۔ یہ اجلاس ڈاکٹر مبشر حسن کی اقامت۔4 کے گلبرگ میں منعقد ہوا کرتے تھے۔ ان افراد نے مسٹر بھٹو سے رابطہ قائم کیا اور مسٹر بھٹو اور جے اے رحیم کے ساتھ مل کر ایک نئی سیاسی جماعت قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ 30 نومبر اور یکم دسمبر 1967ءکو لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کی اقامت پر اس نئی پارٹی کا تاسیسی اجلاس منعقد ہوا جس میں پارٹی کا نام پاکستان پیپلز پارٹی تجویز کیا گیا اور پارٹی کے چار رہنما اصول منظور کیے گئے: (الف)اسلام ہمارا دین ہے۔ (ب)جمہوریت ہماری سیاست ہے۔(ج)سوشلزم ہماری معیشت ہے۔(د)طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے تایسی اجلاس میں جو افراد شریک ہوئے ان میں رسول بخش تالپور‘ حنیف رامے‘ شیخ محمد رشید‘ حیات محمد خان شیرپاﺅ‘ عبدالوحید کٹپر‘ معراج محمد خان‘ حق نواز گنڈا پور‘ ڈاکٹر مبشر حسن‘ جے اے رحیم‘ بیگم شاہین رامے‘ ملک حامد سرفراز‘ اسلم گورداسپوری‘ رفیق احمد باجوہ اور امان اللہ خان وغیرہ شامل تھے۔اس اجلاس میں ذوالفقار علی بھٹو کو پارٹی کا چیئرمین اور جے اے رحیم کو جنرل سیکریٹری منتخب کیا گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو بہت جلد ملک کے غریب طبقے کی حمایت حاصل ہونا شروع ہوئی۔ پارٹی کی اصل قوت مغربی پاکستان کا نوجوان طبقہ تھا جو ملک میں سوشلزم اور مساوات پر مبنی معاشرے کے قیام کا خواہش مند تھا۔ یوں یہ پارٹی مغربی پاکستان کی مقبول ترین پارٹی بن گئی اور 1970ءکے انتخابات میں اس نے اپنی یہ مقبولیت ثابت بھی کردی۔ لیکن 1977 میں جنرل ضیاءالحق نے ماضی سے سبق حاصل کئے بغیر دوبارہ اقتدار پر قبضہ کر لیا۔اور بھٹو صاحب کو پھانسی دے دی۔ پھر چیئرمین پیپلزپارٹی بھٹو کی پھانسی کے بعد جنرل ضیاءالحق نے دس سالہ دور آمریت میں پیپلز پارٹی اور اس کے کارکنوں کے ساتھ ہر اُس شخص پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا، جس نے کسی بھی شکل میں یا تو آمریت کی مزاحمت کی، یا کسی بھی سطح پر پیپلز پارٹی اور بھٹو شہید کا مقدمہ لڑنے کی کوشش کی۔راقم بھی انہی جیالوں میں سے ایک تھا جنہیں لاہور کے شاہی قلعہ میں قید و بند کی صعوبتیں جھیلنا پڑیں، اُس وقت آتش جواں تھا اس لیے ہم بھی صف اول کے جیالوں میں شامل رہتے تھے، سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور آمریت کے خلاف خوب زہر اُگلتے تھے۔ الغرض یہ وہ سیاہ ترین دور تھا کہ بھٹو صاحب کو جسمانی طور پر ختم کرنے سمیت پیپلز پارٹی کا جسمانی و نظریاتی وجود ختم کرنے کی پوری کوششیں کی گئیں، لیکن 1988 کے انتخابات کے نتائج نے واضح کردیا کہ نہ تو لوگوں کے دلوں سے بھٹو کو نکالا جاسکا اور نہ پیپلز پارٹی کی عوامی مقبولیت ختم کی جاسکی۔ دس سال میں آمرانہ طاقتوں کے ہاتھوں زیر عتاب رہنے والی پیپلز پارٹی 1988کے انتخابات میں آمریت کے دودھ پر پلے ہوئے سیاسی پہلوانوں کو شکست سے دوچار کرتے ہوئے دوبارہ حکومت بنا نے میں کامیاب رہی۔ پیپلز پارٹی نے وفاق میں تیسری بار 1993 جب کہ چوتھی اور آخری بار 2008 میں حکومت بنائی۔ اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے کئی ایک اچھے کام بھی کیے جن میں ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایک متفقہ آئین بنایا اور نافذ کیا، پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع کیا۔پاکستان اسٹیل مل اور ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا شروع کیں۔لاہور میں دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کی۔اور پھر 1971ءکی جنگ کے بعد بھارت کی قید سے 90 ہزار فوجیوں کو رہا کروایا۔ غریب کسانوں میں زمینیں تقسیم کیں۔ بے نظیر بھٹو نے خواتین کے پولیس اسٹیشنز قائم کرنے، کاروبار کے لئے قرض فراہم کرنے، خواتین کے حقوق کو انسانی حقوق کے طور پر تسلیم کرانے اور اعلیٰ عدلیہ میں خواتین ججز کا تقرر ممکن بنانے سمیت عورتوں کو ہر میدان میں آگے لانے کے لئے قابل ستائش اقدامات کیے۔ لیکن آہستہ آہستہ اس سیاسی پارٹی کا گراف بھی نیچے جاتا گیااور ایک وقت آیا کہ پاکستان پیپلزپارٹی بھٹو کی سیاسی پارٹی نہیں رہی۔ اس پارٹی کی سوچ اور نظریے میں بڑا بدلاﺅ اُس وقت آیا جب محترمہ کی موجودگی اور اُن کی قیادت میں پیپلزپارٹی نے ن لیگ کے ساتھ میثاق جمہوریت پر دستخط کیے اور اقتدار کے لیے تمام اختلافات بھلانے پر اتفاق کیا۔ اور پھر رہی سہی کسر محترمہ کی شہادت کے بعد زرداری صاحب کے فیصلوں نے نکال دی جیسے 2008ءکا الیکشن جیتنے کے بعد پیپلزپارٹی نے ن لیگ کے ساتھ اشتراک کر لیا، تو اسی دن پنجاب سے پیپلزپارٹی کا صفایا ہو گیا تھا۔ اور پھر اگر محترمہ کی شہادت کے بعد بلاول زرداری یا آصف زرداری کے بجائے کوئی سینئر ممبر اس کا صدر یا چیئرمین بن جاتا تو پیپلزپارٹی بچ سکتی تھی۔کیوں کہ یہ کسی مذاق سے کم نہیں تھا کہ رضا ربانی، اعتزاز احسن، قمر الزمان کائرہ، فاروق ایچ نائیک، جہانگیر بدر جیسے سینئر سیاستدانوں کے ہوتے ہوئے خاندانی سیاست کو آگے بڑھایا جاتا۔ یعنی جس گاڑی کا ڈرائیور ہی اچھا نہیں ہوگا وہ گاڑی کیا سفر کرے گی؟ اور پھر یہ انگریزی کہاوت ہے کہ جب ریاست کا یا سیاسی جماعت کا بیڑہ غرق کرنا ہوتو اُسے کسی ایک خاندان کے حوالے کر دو ۔ انڈیا میں بھی کانگریس کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہوا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب 1962ءمیں پنڈت نہرو کا انتقال ہواتو پرائم بہادر لال شاستری کو وزیر اعظم بنایا گیا اور اندرا گاندھی کو انفارمیشن منسٹر مقرر کیا گیا۔تو کانگریس مزید پھلی پھولی، سب نے دیکھا کہ پارٹی کے اندر جمہوریت پروان چڑھتی رہی مگر جب اندرا گاندھی کے بعد راجیو گاندھی، راجیو گاندھی کے بعد سونیا گاندھی، سونیا گاندھی کے بعد اُن کا بیٹا راہل گاندھی آیا ہے تو یہ پارٹی بھی ایک جمہوری پارٹی سے ”خاندانی پارٹی“ بن گئی۔ جس کی وجہ سے آج کانگریس کا حال بھی پیپلزپارٹی جیسا ہو رہا ہے۔ اور بی جے پی سے اس کو تین دفعہ شکست ہو چکی ہے۔ وہاں بھی پیپلزپارٹی کی طرح پارٹی کو اپنی جائیداد سمجھ کر عہدے بانٹے جا رہے ہیں۔ الغرض اس میں کوئی شک نہیں کہ پیپلزپارٹی یا کانگریس جیسی سیاسی پارٹیاں مزید اچھے کام بھی کر سکتی تھیں، مگر اُسے خاندانی سیاست نے دفن کر دیا ۔ ایسا شاید اس لیے بھی ہے کہ ہماری سیاسی پارٹیوں خاندانوں میں بچوں کی تربیت کرنے کا رواج ہی نہیںہے اب بندہ پوچھے کہ بلاول کو کیا علم کہ لاڑکانہ کی سڑکوں کا کیا حال ہے؟ یا کراچی کی گلیوں میں رہنے والوں کے کیا مسائل ہیں؟ اُسے کیا علم کی سندھ کے دیگر اضلاع کے زمینی حقائق کیا ہیں؟ اسی طرح راہول کو کیا علم کے دہلی کی گلیوں میں کیا ہورہا ہے؟ یعنی یہ بچے سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوتے ہیں اُنہیں کیا علم کہ عام آدمی کے مسائل کیا ہیں؟ یا انہیں کیا علم کہ دنیا کا مقابلہ کیسے کرنا ہے؟ اس لیے یہاں یہ کہنا بجا ہو گا کہ جس پارٹی نے بھی اپنی پارٹی کو وراثتی پارٹی بنایا ہے وہ تباہ ہو گئی ہے، جیسے اے این پی، ن لیگ، جمعیت علمائے اسلام ف وغیرہ جیسی پارٹیاں سب کے سامنے ہیں ۔اور حد تو یہ ہے کہ پاکستان دنیا کا واحد جمہوری ملک ہے جہاں موروثی سیاست سب سے زیادہ ہے۔اور پھر یہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان سیاسی پارٹیوں کو کہیں اور سے Manageکیا جاتا ہے۔خیر یہ ایک الگ بحث ہے لیکن اگر ہم دنیا پر نظر ڈالیں تو آپ کو ترقی یافتہ ممالک میں کہیں موروثی سیاست نظر نہیں آئے گی مثلاََ امریکی کانگریس میں موروثی سیاست کا حصہ تقریباً 6 فیصد ،انگلینڈ میں یہ تناسب 7فیصد، کینیڈا میں 3فیصد، فرانس میں یہ تناسب 6فیصد جبکہ ارد گرد کے ممالک میں دیکھیں تو بھارت کی لوک سبھا میں 28 فیصد،بنگلہ دیش میں 36فیصد اور پاکستان کی قومی اور پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں موروثی سیاست دانوں کا حصہ 53 فیصد ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان جمہوری ملکوں کی فہرست میں 110ویں نمبر پر موجود ہے۔اور پیپلزپارٹی پاکستان میں موجود سیاسی جماعتوں میں سر فہرست دکھائی دیتی ہے۔ تبھی اس کا گراف ہر گزرتے دن ڈاﺅن ہو رہا ہے اور سینئر ممبران کے اندر پارٹی کی اپنائیت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ لہٰذاپیپلزپارٹی خاص طور پر کنگ میکر آصف علی زرداری کو سوچنا ہوگا کہ اُن کے کارکن اُن کی پارٹی سے بددل کیوں ہو چکے ہیں؟ اُن کی پارٹی کا پنجاب سے صفایا کیوں اور کیسے ہوگیا ہے؟اور اگر اسے دوبارہ اقتدار میں آنا ہے تواُس کے لیے اُسے کیا کرنا ہوگا؟ سب سے پہلے زرداری صاحب حالیہ ضمنی انتخاب کو دیکھ لیں کہ اُن کی پارٹی کہاں کھڑی ہے۔ انہیں ہر ضمنی انتخاب میں ضمانت ضبط ہونے کا طعنہ سننے کو ملتا ہے۔ نہیں یقین تو لاہور کے حلقہ 133میں اتوار کو ضمنی انتخاب ہونے والا ہے جہاں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کا ٹاکرا ہے جبکہ تحریک انصاف کا اُمیدوار ویسے ہی ڈسکوالیفائی ہو چکا ہے لہٰذاپیپلزپارٹی کو خود ہی اندازہ ہو جائے گا کہ وہ پنجاب میں کتنی پیچھے ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ دیکھنے کیلئے اُنہیں خاندانی سیاست سے باہر نکل کر دیکھنا ہوگا ۔ورنہ اگلے جنرل الیکشن میں بھی اللہ ہی حافظ! #Pakistan Peoples Party #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan