”میرا وطن“ قرضوں سے کیسے چھٹکارہ پائے !

ہم لکھاریوں کو بھی نہ جانے کس بات کی دھن سوار رہتی ہے کہ حکومت کے لیے ایسی ایسی تجاویز تلاش کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ شاید وہ اپنا قبلہ درست کر لے۔ لیکن مایوسی اُس وقت ہوتی ہے کہ جب اُسی خاص پہلو میں اُنہیں شکست ہو جاتی ہے، اس پر ہمیں دکھ تو بہت ہوتا ہے مگر پھر سوچتے ہیں کہ حکومت نے کروڑوں روپے تنخواہیں دے کر جو وزیر، سینیٹر، مشیر ، اور مشیروں کے مشیر رکھے ہیں بھلا وہ ”ماہرین“ اس ”خلاءکے بارے میں کیوں نہیں سوچتے؟ اور وہ کر کیا رہے ہیں؟کیا اُنہیں ملک کا مزید بیڑہ غرق کرنے کے لیے رکھا ہے یا محض زبان طرازی کے لیے؟ حالانکہ یہ انہی ”ماہرین“ کی مرہون منت ہے کہ وطن عزیز ہر شعبہ میں پیچھے رہ چکا ہے۔ جبکہ معاشی طور پر تو ملک کا ویسے ہی دیوالیہ نکل چکا ہے۔ افسوس تو اس بات پر ہوتا ہے کہ گھر کے مکینوں کو اس بات کا احساس تک نہیں ہے.... لیکن کیا کریں ہمارا کام ہے ”اذان “ دیتے رہنا خواہ کوئی نمازی آئے یا نہ آئے۔ بقول فیض صاحب کے کہ ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے اور ویسے بھی ہم اُن لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے تحریک انصاف کے ساتھ ”تبدیلی“ کا خواب دیکھا تھا، جس کو لے کر ابھی بھی چند فیصدی اُمید ضرور ہے کہ شاید ہمارا کپتان ”کم بیک“ کرے۔ لیکن مسائل ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے، ان میں سے بیشتر مسائل تو حکومتی غلط حکمت عملی کی وجہ سے گھمبیر تر ہوتے جا رہے ہیں۔ اب آپ مہنگائی اور آئی ایم ایف سے قرض لینے کے معاملے کو ہی دیکھ لیں، ہر غریب شخص یا معمولی تنخواہ لینے والا پریشان دکھائی دیتا ہے ۔ شوکت ترین صاحب فرماتے ہیں کہ اصل مسئلہ مہنگائی نہیں بلکہ ”غربت“ ہے، وہ صحیح فرما رہے ہیں، کیوں کہ جب لوگوں میں چیزیں خریدنے کی سکت ہی نہیں ہے تو اصل مسئلہ مہنگائی نہیں بلکہ غربت ہی ہوگا، لیکن تف ہے عوام کو غربت سے نکالنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کر رہا۔ بلکہ پہلے کی طرح آج بھی ہم آئی ایم ایف سے قرضہ لے کر ”وکٹری“ کا نشان صرف اس لیے بناتے ہیں کہ ہمیں وقتی ریلیف مل گیا ہے۔ جیسے حالیہ ایک ارب ڈالر کی آئی ایم ایف سے قسط ملنے پر تمام وزراءایک دوسرے کو مبارکبادیں دیتے نہیں تھکتے بالکل اسی طرح ماضی میں بھی حکومتی اراکین ایسا ہی رویہ اختیار کرتے تھے۔ حالانکہ انہیں یہ فکر نہیں ہوتی کہ آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر لینے کی قیمت بالآخر میرے اور آپ جیسے عام شہری نے ادا کرنا ہے۔جس رقم کے حصول کا معاہدہ ہوا ہے وہ فقط اسی صورت ہماری حکومت کو دستیاب ہوگی اگر رواں برس کے اختتام سے قبل وہ بجلی،گیس اور پیٹرول کی قیمتوں میں ہوشربااضافے کے علاوہ 550ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانا بھی یقینی بنائے۔بجلی،گیس اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ حکومتی اعلان سے ہوجاتا ہے۔نئے ٹیکس لگانے کے لئے تاہم ضمنی بجٹ نامی شے قومی اسمبلی سے منظور کروانا ہوگی، جس میں 550ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے جائیں گے۔اور جو حکومت ایک دن میں 33بل پاس کروا لے اُس کے لیے ضمنی بجٹ منظور کروانا کون سا مشکل کام ہے۔ خیر آج ہمارا موضوع اسٹیٹ بنک کی اُس رپورٹ پر طائرانہ نظر ڈالنا ہے جو اُس نے گزشتہ ہفتے جاری کی جس کے مطابق موجودہ حکومت سابقہ حکومتوں سے نسبتاََ زیادہ قرض لے چکی ہے۔ اور ملک کے ذمے واجب الادا ملکی و غیر ملکی قرضوں کا حجم 50 ہزار ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔اس کے علاوہ پاکستان کے بیرونی قرضوں کا حجم 127 ارب ڈالر سے تجاوز کرتے ہوئے ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ قرض کے اس مجموعی بوجھ میں آئی ایم ایف، بین الاقوامی مالیاتی اداروں، پیرس کلب اور غیر ممالک سے لیے گئے قرضوں کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر کمرشل بینکوں سے حاصل قرضے بھی شامل ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز کی گزشتہ حکومتوں کو پاکستان کے قرضوں میں اضافے پر مورد الزام ٹھہراتی ہے تاہم رپورٹ کے مطابق اقتدار میں آنے کے بعد تحریک انصاف کی حکومت کے 39 ماہ کے اقتدار میں اس کی قرضے لینے کی رفتار سابقہ حکومتوں سے زیادہ دکھائی دیتی ہے۔یعنی 1947 سے لے کر 2008 تک ملک کے ذمے واجب الادا قرضے کا حجم صرف چھ ہزار ارب تھا جو صرف 13 برسوں میں 50 ہزار ارب سے تجاوز کر گیا ہے۔2008 میں جو قرضہ چھ ہزار ارب تھا وہ 10 برسوں میں 30 ہزار ارب تک جا پہنچا جبکہ موجودہ حکومت کے صرف 39 مہینوں میں اس قرضے میں 20 ہزار ارب کا اضافہ ہوا اور اس کا حجم 50 ہزار سے اوپر جا پہنچا۔پی پی پی کی حکومت میں قرضے لینے کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو حکومت ہر روز پانج ارب روپے کا قرضہ لے رہی تھی، نواز لیگ ہر روز آٹھ ارب روپے کا قرضہ لے رہی تھی، جبکہ موجودہ حکومت ہر روز 17 ارب روپے کا قرضہ لے رہی ہے جو اس کی زیادہ قرضہ لینے کی رفتار کا ظاہر کرتا ہے۔اور پھرایک عام تاثر یہ بھی ہے کہ حکومت کے قرضے اس لیے بڑھے کہ اُس نے پرانے قرضوں کی ادائیگیاں کی ہیں حالانکہ تحقیق کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ہر دور میں ہی قرضوں کی واپسی ہوتی رہی ہے ، یا یوں کہیں کہ جب آئی ایم ایف یا دیگر ادارے قرضے دیتے ہیں تو اپنی قسطیں کاٹ کر ہی دیتے ہیں۔ اور ویسے بھی اگر قرض واپسی کی بات کریں تو اسٹیٹ بنک کی رپورٹ کے مطابق موجودہ حکومت نے3 سال3ماہ میں 32 ارب ڈالر نیا قرض تو لیا مگر ساتھ ہی 39 ارب 59 کروڑ ڈالر قرض و سود کی ادائیگی پر بھی خرچ کیے۔پاکستان مسلم لیگ(ن) نے 5 سال میں 34 ارب ڈالر کا قرض لیا جبکہ 33 ارب 30 کروڑ ڈالرکا قرض و سود ادا کیا اور پیپلز پارٹی نے 5 سال میں 15 ارب ڈالر کا نیا قرض لیا جبکہ 24 ارب 30 ڈالر قرض و سود کی ادائیگی پر خرچ کیے۔ یہ سب چیزیں ایک طرف مگر پریشانی اُس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب یہ سننے کو ملتا ہے کہ اگلے دو ماہ میں حکومت مزید قرض لینے کی منصوبہ بندی کر چکی ہے بلکہ ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کو درخواستیں بھی بھجوا دی گئی ہیں، جبکہ ہم پہلے ہی ان دونوں بینکوں کے نمایاں انداز میں مقروض ہیںیعنی جن اداروں سے ہم نے قرض لے رکھا ہے اُن میں ورلڈ بینک 46 فیصد کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے، ایشین ڈویلپمنٹ بینک 25 فیصد کے ساتھ دوسرے، چین 24 فیصد کے ساتھ تیسرے اور جاپان 3 فیصد کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے۔ ورلڈ بینک اور اے ڈی بی سے حاصل کردہ قرض کو اگر آئی ایم ایف کا قرض کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کیونکہ اگر ا?ئی ایم ایف پاکستان کو قرض نہیں دے گا تو یہ ادارے بھی قرض روک لیں گے۔ اور اب جبکہ آئی ایم ایف کا قرض ملنے جا رہا ہے تو اسی کی بنیاد پر ورلڈ بینک اور اے ڈی بی سے بھی قرض مل جائے گا۔ اس کے علاوہ سعودی عرب سے بھی تقریباً تین ارب ڈالر قرض سٹیٹ بینک میں رکھوانے کے لیے مل جائیں گے۔ ان حالات میں اگر یہ کہا جائے کہ حکومت کی منصوبہ بندی قرض پر معیشت چلانے کی ہے، تو غلط نہ ہو گا۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ چین کی حکومت نے رواں سہ ماہی کے دوران حکومت پاکستان کو مزید قرض دینے سے انکار کیا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ چین پچھلے قرضوں کی واپسی پر زور دے رہا ہے۔ قصہ مختصر کہ پاکستان ان ممالک کی فہرست میں آچکا ہے جن ممالک نے دنیا میں سب سے زیادہ قرضے لے رکھے ہیں، ان ممالک کی فہرست میں سب سے پہلے نمبر پر جاپان، دوسرے نمبر پر یونان، تیسرے پر لبنان، چوتھے پر جمیکا، پانچویں پر اٹلی، چھٹے نمبر پر پرتگال، ساتویں پر آئر لینڈ، آٹھویں پر قبرص، نویں پر بھوٹان، دسویں پر امریکا، 11ویں نمبر پر سنگا پورہے ، 12ویں نمبر پر بیلجیئم، 13ویں نمبر پر کیپ ورڈے، 14ویں نمبر پر سپین اور 15ویں نمبر پر فرانس جبکہ اس فہرست میں پاکستان 38ویں نمبر پر آتا ہے۔ لہٰذافی الوقت اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان میں اتنی صورتحال خراب نہیں ہے جتنی دنیا کے باقی ممالک کی ہے اور یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس وقت دنیا کے 122ممالک قرضوں پر چل رہے ہیں۔ لیکن فرق صرف اور صرف یہ ہے کہ باقی ممالک اس لیے آگے ہیں کہ اُن کی ترقی کرنے کی شرح پاکستان سے بہت زیادہ ہے جبکہ پاکستان کی ترقی کرنے کی شرح یعنی GDPدنیا کے آخری پانچ ممالک میں آتی ہے یعنی ایشیا میں پاکستان صرف جنگ زدہ شام سے بہتر ہے جبکہ دنیا میں انگولا، سوڈان اور آئس لینڈ سے بہتر ہے۔ الغرض اگر ہم قرضے لیتے ہیں اوراُنہیں صرف اپنی عیاشیوں اور تنخواہوں کی مد میں خرچ کر دیتے ہیں تو ایسا کرنے سے ملک کو دیوالیہ ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اور پھر اگر ہمیں قرض لینے کی شرح کو کم کرنا ہے توخدارا اُن سیکٹرز پر غور کرنا چاہیے جہاں سے ہمیں پیسے آرہے ہیں، جیسے ہمیں لگ بھگ 30ارب ڈالر سالانہ بیرون ملک پاکستانی بھیجتے ہیں ، لہٰذازیادہ ترسیلات بھیجنے والے پاکستانیوں کی ملکی سطح پر حوصلہ افزائی کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ انہیں ملکی ائیرپورٹس پر خصوصی پروٹوکول دیا جائے۔ وزرا عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے تنخواہ لیتے ہیں ان کی آسائشیں کمزور معیشت پر بوجھ ہیں، ان کا قوم پر کوئی احسان نہیں پھر بھی انہیں ہر گلی، سڑک اور ائیرپورٹ پر پروٹوکول دیا جاتا ہے جبکہ ملکی معیشت کو مضبوط کرنے والے بیرون ملک پاکستانیوں کو عزت اور تکریم دینے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جاتے۔پھر ایکسپورٹ بڑھانے اور امپورٹ کم کرنے یعنی لگژری آئیٹمز پر پابندی لگانے کی ضرورت ہے۔ ان سب سے بڑھ کر حکومت کو عوام کا حوصلہ بڑھانے کی ضرورت ہے یعنی عوام کا مورال بلند کرکے اُنہیں استعمال کرنے کی ضرورت ہے جسکا ذکر انشاءاللہ اگلے کالم میں کروں گا........ #Pakistan #Loan #IMF #Ali Ahmed Dhillon #Talkiyan