ہم ”وبا“ کے عروج پربھی جھوٹ کی سیاست کررہے ہیں!

پی ڈیم ایم کے کورونا وائرس کی ملک میں موجودگی کے باوجود جلسے بالکل ایسے ہی ہیں جیسے امریکا میں جب کورونا وائرس آیا تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ری پبلیکن پارٹی نے اسے زیادہ سنجیدگی سے نہ لیا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس وائرس نے نہ صرف ڈھائی لاکھ امریکیوں کی جان لے لی بلکہ 80لاکھ کے قریب لوگ اس سے متاثر بھی ہوئے۔ خود ٹرمپ بھی کورونا وائرس کا شکار ہوئے اور قرنطینہ میں چلے گئے۔ دیگر عالمی رہنماو¿ں کی نسبت یہ ڈونلڈ ٹرمپ ہی تھے جنہوں نے اپنے لوگوں کو ماسک کو اہمیت نہ دینے کی تاکید کی اور وبا کو نظر انداز کیا۔ ٹرمپ کے حمایتیوں میں شامل کم تعلیم یافتہ لوگوں نے ان کی بات پر عمل کیا اور وہ اس جان لیوا وائرس کے شکار ہوگئے۔ اور یہ بھی ٹرمپ ہی تھے جو اس دوران انتہائی غیر سنجیدہ مشورے بھی دیتے رہے جیسے وائرس سے بچنے کے لیے رگوں میں بلیچ کے انجیکشن لگوا لیے جائیں۔ یہ سارے معاملات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ وہ حقیقت سے کتنے دور ہیں۔ چنانچہ جب انہوں نے بغیر ماسک پہنے میٹنگز میں شرکت کی اور اپنے مخالف امیدوار جو بائیڈن کے ساتھ صدارتی مباحثے میں حصہ لیا تو ڈاکٹر حیرت زدہ رہ گئے۔ یہی نہیں بلکہ ٹرمپ کے ساتھ آنے والے وفد نے بھی حفاظتی سامان کے استعمال اور ماسک پہننے سے انکار کردیا۔ اس کا نتیجہ غیر محفوظ ملاقاتوں کی صورت نکلا اور یوں ان کے اسٹاف کے تقریباً درجن سے زائد افراد، اہل خانہ سینیٹرز اب اس وبا سے متاثر ہوئے اور اکا دکا ہلاک بھی ہوگئے۔ اور پھر آخر میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اس غیر سنجیدہ رویے کے باعث نہ صرف ٹرمپ الیکشن ہار گئے بلکہ اُن کے قریبی ساتھیوں نے بھی انہیں چھوڑنا شروع کر دیا۔قصہ مختصر وبا کے پھیلاﺅ میں سیاست کا گہرا تعلق دیکھنے میں آیا ہے۔ امریکہ، بھارت اور برازیل میں وہاں کی حکومتوں نے لاپروائی کی، بروقت فیصلے نہ کئے، حفظانِ صحت کے وہ اصول جو وبا کے پھیلاﺅ کو روکنے اور کم کرنے کیلئے لازم تھے، وہ انہوں نے ہوا میں اڑا دیئے، وبائی ماہرین کی رائے کو یکسر ٹھکرا دیا، سائنس دانوں کا عام جلسوں میں مذاق اڑاتے رہے، شروع میں تو انہوں نے یہ کہا کہ کورونا موسمی نزلہ زکام سے کوئی مختلف وائرس نہیں ہے۔ اس نوعیت کی وباﺅں پر قابو پانے والے قومی ادارے پیشہ ورانہ اور درست مشورہ دیتے رہے ، مگر کوئی ٹس سے مس نہ ہوا۔ الغرض ہر جگہ مثالیں موجود ہیں کہ جہاں سربراہانِ حکومت نے موثر اقدامات کئے وہاں زندگیاں محفوظ رہیں۔یہاں وزیر اعظم عمران خان نے وسائل کی کمی کے باوجود وبا کے پھیلاﺅ کو روکنے میں زبردست کامیابی حاصل کی۔ شروع میں بہت فکرمندی تھی کہ اگر اس رفتار سے لوگ وبا کا شکار ہونا شروع ہوگئے جس قدر ہم بھارت اور یورپ میں دیکھ رہے ہیں تو پھر کیا ہوگا؟ ملک بھر میں لاک ڈاﺅن نافذ کرنا مشکل کام تھا، مگر حکومت نے کردکھایا۔ سیاسی قیادت نے پہل کی، سمت اور حوصلہ برقرار رکھا، وسائل بھی فراہم کئے، مگر عملدرآمد کا کام پولیس اور مقامی انتظامیہ نے خوب سرانجام دیا۔ لیکن کورونا کی اس دوسری لہر میںہمارا رویہ مختلف نظر آرہا ہے، جیسا behaviourاس وائرس کے آغاز میں امریکا، برازیل یا بھارت کا تھا بالکل ویسا ہی آج ہمارا رویہ ہے۔ یہاں کورونا وباءکی دوسری لہر سر پر آن کھڑی ہے اور روزانہ کی ہلاکتیں 70افراد سے تجاوز کر چکی ہیں جبکہ کیسز کی تعداد روزانہ کی بنیاد پر 3000سے زیادہ بتائی جا رہی ہے، لیکن اپوزیشن اتحاد ہے کہ جس سے چند ماہ کا صبر بھی برداشت نہیں ہو رہا۔ اور پھر بلاول بھٹو زرداری ، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور دیگر سیاسی رہنما خود بھی کورونا کا شکار ہیں لیکن مجال ہے کہ یہ اپنی نام نہاد تحریک کو عوامی اور ملکی مفاد کی خاطر فی الوقت روکنے کی طرف آرہی ہو۔ لہٰذاآج خطرات کے سائے پھر سے منڈلانے لگے ہیں۔ اب ڈر ہے کہ کہیں ہماری مثالی کامیابی ہوا میں تحلیل نہ ہوجائے۔ اور پھر اگر کورونا وائرس سے ہٹ کر قومی سیاست کی بات کریں تو حکومت اور اپوزیشن اس وقت فل فارم میں نظر آرہے ہیں، جیسے گزشتہ روز ملتان کا جلسہ ہوا، بادی النظر میں شاید یہ ایک دن کا فلاپ شو ہوتا مگر حکومت نے اسے کامیاب شو کروانے میں بھرپور ساتھ دیا۔ پیپلزپارٹی نے ملتان میں یوم تاسیس کے نام پر پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے بھر پور اجتماع کا فیصلہ کیا اور پنجاب میں کارکنوں کی کمی پوری کرنے کے لئے سندھ سے شرکاءلانے کی سعی کی‘ سامعین کے اعتبار سے جلسہ کیسا تھا؟ اب یہ غیر متعلقہ سوال ہے، پنجاب حکومت نے ایک دن کے اجتماع کو چار دن کے ایونٹ میں بدل کر پی ڈی ایم کی بھر پور مدد کی جس پر مولانا فضل الرحمان، مریم نواز شریف اور آصفہ بھٹو زرداری جنہوں نے کل ہی سیاست میں قدم رکھا، اگر شکریہ ادا نہ کریں تو یہ احسان ناشناسی ہو گی، پنجاب میں یہ پی ڈی ایم کا دوسرا جلسہ تھا، پہلا پاور شو نوزائدہ اتحاد نے گوجرانوالہ میں کیا جو بھر پور تاثر قائم نہ کر سکا، پنجاب حکومت چاہتی تو گوجرانوالہ سے مزید بہتر حکمت عملی کے ذریعے پی ڈی ایم کو ناکوں چنے چبوا سکتی تھی ، مگر اُس کے ہومیو پیتھک آپریشن نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اور ان جلسوں کے جواب میں حکومتی وزیر اور اپوزیشن جماعتیں جس طرح جھوٹ پر جھوٹ کی سیاست کا کھیل کھیل رہی ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آئندہ دس سالوں میں بھی عوام کا کوئی والی وارث نہیں ہوگا۔ اور پھر وکلاءکے الیکشن میں ہوائی فائرنگ ، اور حکومت کا کچھ نہ کر سکنا، حکومت کی رٹ کو نہ صرف چیلنج کرتا ہے بلکہ اُس کے لیے لمحہ فکریہ بھی ہے، جبکہ ایک طبقہ یہ بھی سوچتا ہے کہ حکومت جان بوجھ کر کورونا کیسز میں اضافہ کروانے کا باعث بن رہی ہے، تاکہ ملک میں کورونا وبا پھیلے اور عوام کا دھیان اُن کی طرف سے ہٹ جائے ۔ بہرکیف ملتان کے جلسے میں اپوزیشن اتحاد کے تمام رہنماﺅں نے جس طرح کی زبان استعمال کی اُس سے یہ پیغام ضرور ملتا ہے کہ ہم بطور سیاسی حریف ایک دوسرے کا احترام کرنا تو دور کی بات ہم لفظ ”سیاست“ سے بھی نا آشنا ہو چکے ہیں، میرے نزدیک سیاست میں تو دل ہوتا ہے، مگر سیاست بازوں میں دل نہیں ہوتا۔ ہ عوام، خصوصاً غریبوں کو استعمال کرتے ہیں۔ویسے تو میں نے اسی جھوٹ کی سیاست پر پورا کالم لکھنے کا سوچا تھا، مگر موجودہ حالات میں سنگینی اس بات پر ہے کہ اپوزیشن اگلا لاہور جہاں کی آبادی کا تخمینہ 2کروڑ ہے میں جلسہ کرنے کا بھی 16دسمبر کو ارادہ رکھتی ہے۔ تو ایسے میں ہمیں کبھی اعتراض نہیں رہا بلکہ سب جمہوری تحریکوں کے دوران جلسوں میں شرکت بھی کی مگر موجودہ حالات میں ہٹ دھرمی ناقابلِ فہم ہے۔ دیکھ لیں، گلگت بلتستان میں جلسوں کے بعد کیا ہوا۔ اس میں حکومتی جماعت بھی ذمہ دار ہے۔ کپتان کے خلاف غم و غصہ‘ نفرت اور حکومت گراﺅ پالیسی اپنی جگہ‘ عوام کو تو بیماری کی آگ میں نہ جھونکیں۔ لیکن برعکس اس کے بعض اوقات آدمی اس بدگمانی کا شکار ہوتا ہے کہیں اپوزیشن لیڈر بالخصوص دونوں سابقہ حکمران خاندانوں کے سپوت واقعی کورونا کے پھیلاﺅ میں دلچسپی تو نہیں رکھتے کہ ایران، اٹلی، امریکہ اور سپین کی طرح لاشیں گریں اور وہ اسے عمران خان کی نااہلی ثابت کر کے اپنی خواہشات کی تکمیل کر سکیں۔ اپوزیشن تو کھل کر کہہ رہی ہے کہ اس کے نزدیک عمران خان کورونا سے زیادہ خطرناک ہے۔بقول شاعر خواہ سچ جان مری بات کو تو خواہ کہ جھوٹ سچ کہوں سچ کو اگر تیرے تو واللہ کہ جھوٹ مطلب واضح ہے کہ کورونا سے صرف جان جانے کا خطرہ ہے جبکہ عمران خان سدا حکمرانی کے خواہش مند افراد اور خاندانوں کے مال، اولاد اور سیاست کے لئے تباہ کن۔جو لوگ چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے کے اصول پر کاربند ہیں وہ عمران خان کی رخصتی کے لئے ہر داﺅ آزمائیں گے ۔ پاکستان میں قانون کی مٹی پلید کرنے میں ہماری سیاسی جماعتوں کا اہم کردار رہا ہے۔ احتجاجی سیاست نے عوام کو قانون شکنی کی ترغیب دی اور بلا تخصیص ہر سیاسی رہنما نے ملکی قوانین ہی نہیں ریاست کو کمزور کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کیا۔ موجودہ حکومت نے مگر عوام سے قانون کی بلا تفریق و امتیاز عملداری کا عہد کیا اور عمران خان بار بار اپنے وعدے کی تکمیل کا یقین دلاتے ہیں، کورونا ایسا مہلک اور موذی مرض ہے جو نہ بڑے چھوٹے میں کوئی تفریق کرتا ہے نہ لیڈر اور کارکن میں امتیاز برتتا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے نقطہ نظر اور پوائنٹ سکورنگ سے قطع نظر جملہ طبّی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ سماجی فاصلے اور ماسک کی پابندی کے بغیر پھیلاﺅ روکنا ممکن نہیں اور ہر طرح کے اجتماعات عوامی صحت کے لئے زہر قاتل ہیں‘ حکومت نے اگر اجتماع روکنے کا فیصلہ کیا تھا تو پھر آسمان گرتا یا زمین پھٹتی‘ اپنے فیصلے کی پابندی کراتی مگر پہلے گرفتاریوں اور پابندیوں پر اصرار اور آخری روز جلسہ کرنے کی اجازت‘ یہ کھلا تضاد ہے جس کے بل بوتے پر ملک میں قانون کا بلا تمیز اطلاق ممکن ہے نہ کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد آسان۔ پنجاب حکومت اور ملتان کی پولیس و انتظامیہ میں جلسہ روکنے کی صلاحیت نہ تھی تو بڑھکیں مارنے‘ کنٹینر کھڑے کرنے‘ رکاوٹیں ڈالنے اور گرفتاریوں سے اپنی جگ ہنسائی کرانے کی ضرورت کیا تھی ماڑی سی تے لڑی کیوں سی؟ بہرکیف اس ساری صورتحال میں ہمیں صرف سیاسی جماعتوں کی زبان اور تربیت میں خاصا فرق نظر آتا ہے، مغربی ممالک میں تو بس حکومت حکم نکالتی ہے اور لوگ عادتاً اس پر عمل کرنا شروع کردیتے ہیں۔ خلاف ورزی کرنے والوں کیلئے اہلکار ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔ قانون جو بھی ہو عمل کیا اور کرایا جاتا ہے۔ جس طرح ہم نے بازاروں‘ پارکوں‘ منڈیوں اور گلی محلوں میں احتیاطی تدابیر کی خلاف ورزیاں اپنے شہروں میں دیکھی ہیں‘ اب تک کی کامیابی معجزہ ہی لگتی ہے۔ لہٰذااگر دفعہ 144لگی ہے تو قانون پر عمل درآمد کروانے کے لیے حکومت کو حرکت میں آنا چاہئے۔ پھر خواہ پی ڈی ایم ہو ، عام عوام ہو، یا تاجر برادری ، قانون قانون ہوتا ہے جو سب کے لیے برابر بھی ہونا چاہیے اور سب کا رہنما بھی ہونا چاہیے جس پر عمل کر کے ہم دنیا کو پیغام دے سکیں کہ ہم اُلجھی ہوئی قوم نہیں بلکہ ایک سلجھی ہوئی قوم ہیں!