باراک اوباما کے انکشافات‘پلاسٹک کے نیلسن منڈیلا

کتاب لکھنے اور کتاب کے ذریعے اپنی یادداشتوں کو محفوظ بنانے کی روایت برسوں پرانی ہے، بعض ترقی یافتہ ملکوں میں یہ روایت اعلیٰ عہدوں پر فائز حکمرانوں کے ریٹائرڈ ہونے یا عہدہ چھوڑنے کے بعد زیادہ نظر آتی ہے، جس کا قارئین بھی شدت سے انتظار کر رہے ہوتے ہیں، امریکا میں بھی یہ خوبصورت روایت چلی آ رہی ہے کہ وہ اپنی منصبی سے فارغ ہونے کے بعد بالعموم اپنی یادداشتیں کتابی صورت میں قوم اور دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اِس سے جہاں اُنہیں مالی فائدہ پہنچتا ہے وہیں تبصروں اور تجزیوں کے ذریعے حقائق کے بہت سے خفیہ گوشے عوام الناس کے سامنے آتے ہیں۔ سابق امریکی صدر باراک حسین اوباما کی کتاب A Promised Land حال ہی میں شائع ہوئی ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ اُس کی کوئی 50لاکھ کاپیاں تیار کی جا رہی ہیں، اِس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ الیکٹرونک میڈیا کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے باوجود مغرب میں کتاب بینی کا ذوق کس قدر ہے۔ اس سطح کی شخصیت یا خاص طور پر امریکی اہم شخصیت کی جب بھی کتاب منظر عام پر آتی ہے تو ہم پاکستانی ”ناقدین“ سب سے پہلے یہ دیکھنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں کہ اس میں پاکستان یا جنوبی ایشیا سے متعلق باب میں کیا کچھ لکھا ہے، اوباما نے بھی اپنی مذکورہ کتاب میں پاکستان کا خاص طور پر ذکر کیا ہے اور ایبٹ آباد آپریشن پر پورا ایک باب لکھا ہے، ویسے تو ایبٹ آباد آپریشن کی تفصیلات بہت جگہوں پر چھپ چکی ہیں لیکن اس کتاب میں مرچ مصالحہ لگا کر جو بات عالمی میڈیا میں پیش کی جا رہی ہے یکم اور دو مئی 2011 کی درمیانی شب نصف سے زیادہ بیت چکی تھی‘ جب چار امریکی ہیلی کاپٹر افغانستان سے پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہوئے اور پاک افغان سرحد سے 160 کلومیٹر پر واقع ایبٹ آباد کا رخ کیا، جہاں شہر سے چار کلومیٹر شمال مشرق میں ایک وسیع و عریض حویلی ان کا ہدف تھی۔ یہ تین منزلہ حویلی 2004 میں تعمیر ہوئی تھی۔ دیگر گھروں سے کوئی8 گنا وسیع اس عمارت کو ”وزیرستان حویلی“ کہا جاتا تھا۔ اڑوس پڑوس والوں کے خیال میں یہ کسی وزیرستانی کا گھر تھا جس کے مکینوں کا ان سے کہیں کوئی رابطہ نہیں ہوا تھا۔ دو بھاری بھرکم سکیورٹی گیٹ اور دیواروں پر خاردار تار اس کے محفوظ ہونے کی علامت تھے۔ یہ امریکہ کو سب سے ”زیادہ مطلوب“ (Most wanted) اسامہ بن لادن کا مسکن تھا، امریکی برسوں سے (نائن الیون سے بھی پہلے سے) جس کے تعاقب میں تھے۔ اگست1998 میں افغانستان میں اسامہ کے ٹھکانے پر کروز میزائل حملہ بھی ”آپریشن گیٹ اُسامہ “کی کڑی تھا لیکن وہ تھوڑی دیر پہلے وہاں سے نکل گیا تھا۔اس کے بعد اسامہ کی خاموش روپوشی قیاس آرائیوں کا موضوع بنی رہی۔ صدر پرویز مشرف نے تو ایک بار اس خیال کا اظہار بھی کر دیا تھا کہ اسامہ شاید اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ خیر اُسامہ پاکستان کب اور کیسے پہنچا، اس حوالے سے کئی قصے، کہانیاں ہیں۔ ایبٹ آباد والی حویلی میں اس کے قیام کی سن گن، اگست 2010 میں امریکیوں کو ہوئی اور اس یقین کے بعد کہ یہ اسامہ ہی کا ٹھکانہ ہے، صدر اوباما نے آپریشن کی منظوری دے دی۔ چار ہیلی کاپٹروں پر آنے والے 79 کمانڈوز اور ایک کتے نے جس میں حصہ لیا۔ یہ سارا آپریشن 40 منٹ میں مکمل ہوگیا تھا۔ افغانستان میں میت کے ڈی این اے کے بعد اسے سمندر کی نذر کرنے کا فیصلہ ہوا۔ صدر اوباما لکھتے ہیں کہ جب انہوں نے ایبٹ آباد آپریشن کی کامیابی کے بعد مختلف صدور کو فون کیا تو پاکستان کے اُس وقت کے صدر آصف علی زرداری کو فون کرنے سے پہلے وہ پریشانی کا شکار تھے، کہ پاکستان کی خودمختاری پر حملہ کرکے کہیں انہوں نے غلطی تو نہیں کردی،اس لیے خدشہ تھا کہ پاکستان اپنی علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی پر خاصا سخت منفی ردعمل دکھا سکتا ہے ، صدر اوباما لکھتے ہیں ”لیکن مجھے خوشگوار حیرت ہوئی جب اُنہوں(صدر زرداری) نے مجھے اِس کامیاب آپریشن پر مبارکباد دی اور اپنے حقیقی جذبات کا اظہار کیا کہ اِن دہشت گردوں نے میری شریک حیات پرائم منسٹر بینظیر بھٹو کو کس طرح قتل کیا تھا۔“ انہوں نے مزید لکھا کہ ”اس ”مبارکباد“ کے بعدمیں حیرت میں ڈوب گیا۔۔۔ ! یہ ہے ہماری خود مختاری و سالمیت کا لب لباب کہ ہم بطور پاکستانی حکمران کس طرح اپنے ملک کا دفاع کس طرح کرتے ہیں، اور بدلے میں ہم اُن سے کیا ملکی فوائد حاصل کرتے ہیں، اور یہ آج کی بات نہیں ہے بلکہ برسوں سے ہمارا وطیرہ یہی رہا ہے کہ ہم ”احسان“ کے بدلے کچھ حاصل نہیں کرتے۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ 70کی دہائی میں پاکستان کے اندرونی سیاسی حالات خراب ہونے کے باوجود پاکستان نے چین اور امریکا کے تعلقات بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، اس لیے امریکہ اور چین کے تعلقات میں پاکستان کے اس کردار، خفیہ سفارت کاری اور اعتماد سازی کو بہت زیادہ سراہا جاتا ہے۔پاکستان جس نے اس خفیہ مشن کے انتظامات میں کلیدی کردار ادا کیا اُسے اِس خدمت کے عوض کیا ملا؟ یہ ابھی تک واضح ہونا باقی ہے۔اس ”مشن“ کے بعد بھی امریکی صدر ہنری کسنجر لکھتے ہیں کہ ہمیں پریشانی لاحق تھی کہ نہ جانے پاکستان اُن سے کیا ڈیمانڈ کرے گا لیکن پاکستان کا ”بڑا پن“ دیکھیے کہ وہاں کے سیاستدانوں نے ماسوائے ذاتی تعلقات کے اور کچھ نہیں مانگا۔ پھر روس افغان جنگ میں صدر ضیاءالحق نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے امریکی ایما پر ”مجاہدین“ تیار کیے، اور روسی لڑائی میں دھکیل دیے۔ افغانستان میں لڑی جانے والی سوویت یا روسی لڑائی 9 سال تک لڑی گئی۔ اس کا آغاز دسمبر 1979ءمیں ہوا جبکہ اس کا اختتام فروری 1989ءمیں ہوا۔ اس لڑائی میں ایک طرف تو افغان فوج کے نام پر روسی فوج لڑ رہی تھی تو دوسری طرف ساری دنیا کے مجاہدین روس کے خلاف بر سر پیکار تھے۔ اطلاعات کے مطابق اس جنگ میں پاکستان سے 2لاکھ کے قریب مجاہدین تھے، امریکا اور روس کے درمیان سرد جنگ کی وجہ سے امریکہ اس جنگ میں کھل کر نہیں کود سکتا تھا مگر امریکی سی آئی اے نے بھی کھل کر مجاہدین کی تربیت اور ہر طرح سے معاونت کی اور روس کو شکست دے دی۔ اب بدلے میں جنرل ضیاءالحق نے کیا ڈیمانڈ کیا، کچھ نہیں! پھر آپ مشرف دور میں آجائیں، 9/11کے بعد پاکستان کے لیے بھی یہ کڑا وقت تھا، کیوں کہ امریکا افغانستان پر حملے کی تیاری کر چکا تھا، اس وقت مشرف کو بھی اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے امریکا کی ضرورت تھی، اور امریکا کو بھی افغانستان پر حملے کرنے کے لیے اڈے درکار تھے، جو پاکستان نے بلاجھجک دے دیے بلکہ بدلے میں بھی کچھ نہ لیا۔ حالانکہ اُس کے اگلے سال ہی جب امریکا نے عراق جنگ کا آغاز کرنا تھا تو اُس وقت مصر کے اڈے درکار تھے، مصر نے یہ اڈے امریکا کو دے دیے مگر اُن کی قیمت یہ تھی کہ امریکا کو مصر کا سارا قرضہ معاف کرنا پڑا۔ مگر بدلے میں پاکستانیوں کو ”سب سے پہلے پاکستان“ کا راگ الاپنے کے لیے دے دیا گیا۔ اور کہا گیا کہ اگر پاکستان نے امریکا کی بات نہ مانی تو پاکستان کو پتھر کے زمانے میں دھکیل دیا جائے گا۔ پھر ایبٹ آباد آپریشن کی روداد سب کے سامنے ہے، پھر کئی مواقعوں پر پاکستان کا ووٹ امریکا کے حق میں استعمال ہوا لیکن مجال ہے کہ پاکستان کو اس حوالے سے کوئی فائدہ حاصل ہوا ہو۔ ن لیگ اور پی پی کے دور میں بھی ایسے بہت سے مواقعے آئے لیکن ہم اُن کا فائدہ نہ اُٹھا سکے، بلکہ ذاتی مفاد لے کر خود ارب کھرب پتی بن گئے۔ اور ملک ترقی سے کوسوں دور چلا گیا۔ بہرکیف ہمارے ہاں اگر دیانت دارانہ قیادت کے بیج بوئے جاتے تو کبھی ہماری فصل خراب نہ ہوتی۔ اور کبھی بھی سیاست دانوں کا روپ دھارے مبینہ طورپر ”چور اور لٹیرے“ آصف زرداری اور نواز شریف جیسے ”منی لانڈر“ اقتدار میں باریاں نہ لےتے۔اگر یہ لوگ پاکستان کے لیے کچھ کر جاتے تو یقینا کسی کو یہ بھی جدوجہد کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی کہ انہیں ہٹایا کس طرح جائے، الغرض ہمارے قائدین پلاسٹک کے نیلسن منڈیلا ثابت ہوئے جنہیں بوقت ضرورت استعمال بھی کیا جا سکتا ہے اور اپنے ذاتی فوائد حاصل کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اب جبکہ کئی برس بعد عمران خان کی شکل میں تبدیلی حکمرانی کسی ”لیڈر“ کو نصیب ہوئی ہے جو اپنا منصب سنبھالنے کے بعد وہ ثابت قدمی سے 70سالوں سے جمع ہوا گند صاف کرنے میں مصروف ہیں۔ ملکی سیاست اب راہِ راست پر آنا شروع ہوگئی ہے۔ حرام خوری کے عادی ”مافیا“ سے اگرچہ جند چھڑانے کے لئے ”فقط چند روز اور …“ گھبرائے بغیر صبر سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ ابلاغ کے حوالے سے مشکل مگر یہ درپیش ہے کہ دنیا اب تک یہ تسلیم کرتی نظر نہیں آرہی کہ پاکستان ”بدل“ چکا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اب دنیا کے ہر فورم پر کبھی ذاتی مفاد پر بات نہیں ہوگی، کبھی قومی مفاد کو ذاتی مفادات پر ترجیح نہیں دی جائے گی، کبھی یہ نہیں سوچا جائے گا کہ چین یا امریکا جانے کے لیے پورے خاندان کو ساتھ لے جایا جائے اور خاندان کے ہر فرد کو سیٹل کرنے کے بارے میں بات چیت کی جائے۔ اور کبھی یہ نہیں سوچا جائے گا کہ ذاتی کاروبار کو بڑھاوا دیا جائے خواہ بھارت کے آگے خود کو بیچ کر ہی ایسا کیوں نہ ہو نے دیا جائے۔ اس لیے دعا ہے کہ یہ ملک اب وسیع تر مفاد میں آگے بڑھے کیوں کہ اب یہ کسی غیر ضروری ”احسان“ تلے دبنے کا متحمل نہیں ہوسکتا!